ہوش سنبھالنے کے بعد گھر کا سب سے بڑابیٹا ہونے کے ناطے اکثر و بیشتر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات کے لئے اس ناچیز کو بازار تک جانے کی تکلیف دی جاتی تھی، ہمارے محلے میں ایک پٹھان کی کریانہ کی دکان تھی جہاں روز مرہ کی اشیاء باآسانی دستیاب تھیں۔ اس دکان کے سامنے والے شوکیس پر ایک عبارت تحریر ہوا کرتی تھی، کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے۔
اسکول کے ابتدائی دنوں میں گھر پر جلدی سونے کی بڑی سخت تاکید ہوا کرتی تھی، یہ اس دور کی بات ہے جب کیبل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ جیسی چیزیں عام نہیں ہوا کرتی تھیں۔ رات کھانے کے دوران PTV پر 9 بجے کا خبرنامہ والد صاحب باقاعدگی سے دیکھا کرتے تھے اور اس خبرنامہ کے دوران والدہ محترمہ ہمیں کھانا کھاتے ہی اٹھا کر سونے کے لئے بھیج دیا کرتے تھے۔ صرف چھٹی والے دن ہم بڑے اہتمام سے خبرنامہ کے بعد تک بیٹھا کرتے تھے اور “اے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن۔۔” کا پرسوز نغمہ سنتے ہوئے کشمیر میں جاری مظالم پر افسردہ ہوا کرتے تھے۔
اللّٰہ بھلا کرے برطانیہ پلٹ ہمارے ماموں کا جو ہر مہینے مجھے فیروز سنز کے کلفٹن والے شوروم پر لے جاتے اور اپنی پسند کی کتابیں خریدنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے، طلسم ہوشربا سے آغاز کیا اور اشتیاق احمد سے ہوتے ہوئے عمران سیریز تک کسی کو نہیں بخشا، اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فلسفہ بھی بغیر سمجھے چاٹنا شروع کردیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسکول میں قدرتی طور پر اردو بطور مضمون پڑھنے میں کبھی بھی دشواری نہیں ہوئی۔ نہم جماعت میں پہنچے تو مطالعہ پاکستان کا مضمون بھی سوائے قائداعظم کے چودہ نکات کے پہلے ہی سے ازبر تھا۔ مطالعہ پاکستان کی کلاس کا پہلا دن تھا، استاد محترم کلاس روم میں داخل ہوئے اور فرمانے لگے کہ آج میں آپ لوگوں کو ایک ایسا سوال بتانے لگا ہوں جو بورڈ کے پیپرز میں ہر سال لازمی آتا ہے اور اس سال بھی لازمی آئے گا۔ استاد محترم نے بورڈ پر چاک سے بڑا بڑا لکھا: مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالیں۔
دو سال پہلے مقبوضہ کشمیر سے ایک دوست جوکہ دہلی میں پی ایچ ڈی کررہا تھا اسلام آباد میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں مقالہ پڑھنے کے بہانے پاکستان آ پہنچا۔اس کے ساتھ بیٹھ کر احساس ہوا کہ کشمیری پاکستان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ کشمیری دوست بتانے لگا کہ کس طرح اس نے واہگہ کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہی سجدہ کیا، بادشاہی مسجد گیا، مینار پاکستان دیکھا، وغیرہ وغیرہ۔ گفتگو آگے بڑھی تو بتانے لگا کہ کس طرح پاکستان کی کرکٹ کی جیت کا جشن پورے انڈیا میں کشمیری مناتے ہیں ۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والا کشمیری پاکستان میں ہونے والے ہر واقعہ سے کشمیریوں کا تعلق بیان کرتا رہا اور میں چپ کر کے سنتا رہا اور سوچنے لگا کہ ہمارا تعلق تو کشمیر سے کریانہ کے دکان کی تحریر، پی ٹی وی پر مستقل چلتے ہوئے سیگمنٹ اور مطالعہ پاکستان کے لازمی سوال تک محدود ہے!
ابھی یکم رمضان کو کچھ کشمیری نوجوان دوست اسلام آباد میں مسئلہ کشمیر پر ہوئی ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں تشریف لائے۔ کانفرنس کے بعد ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔وہ تحریک آذادی کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور پاکستانیوں کے کردار سے نالاں تھے تو میں پاکستان کی صفائی میں تذویراتی مجبوریاں بیان کر رہا تھا۔ وہ بتانے لگے کہ کس طرح کشمیر میں شہداء کے بڑے بڑے جنازے منعقد ہو رہے ہیں، اس سال کے آغاز میں ایک پاکستانی شہید کا جنازہ ایسا بھی ہوا کہ جس کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر گئی اور اس کی لاش کو دفنانے کے حق پرتین مختلف گاؤں اپنا دعویٰ جتاتے ہیں۔ دوران گفتگو برہان کا ذکر آیا تو ان سب کی آنکھوں میں امید کی ایک چمک سی کوندی، اس کے تازہ ویڈیو پیغام پربات کا رخ مڑ گیا تو ایک دلچسپ بات پتہ لگی، ان کشمیری دوستوں میں سے ایک کے چار سالہ بھتیجے نے اپنے چچا سے پوچھا کہ آپ کس کے ساتھ ہیں سیّد علی گیلانی کے ساتھ یا میر واعظ کے ؟ بچے کے سوال پر چچا نے جوابی سوال داغا کہ پہلے تم بتاؤ تم کس کے ساتھ ہو تو بچے نے کہا کہ میں تو برہان کے ساتھ ہوں!
آج کشمیر میں جب برہان وانی جدوجہد آزادی کے دوران اپنی جان قربان کرتا ہے تو اسے پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے، ہر جمعہ کو سوشل میڈیا پرمیں تصویریں دیکھتا ہوں کہ سری نگر سمیت تمام شہروں کی بڑی مساجد کے باہر پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں ، بزرگ رہنما سید علی گیلانی سرعام کہتے ہیں “ہم پاکستانی ہیں،پاکستان ہمارا ہے” ، مسرت عالم بٹ آج جیل میں ہے تو اس کااصل جرم صرف یہ ہے کہ اس نے لاکھوں کے مجمع کے سامنے یہ نعرہ لگایا کہ “کشمیر بنے گا پاکستان”۔ کشمیریوں نے تو ایک بار پھر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کےنہ صرف بھارت بلکہ پوری عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اور پاکستانی بھی کشمیریوں کے ساتھ تعلق جوڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں یا فقط نمائشی فوٹو سیشنوں، مظاہروں اور یوم سیاہ منانے تک ہی محدود رہتے ہیں؟ کیا ہم من حیث القوم کشمیریوں کے لئے کھڑا ہونے کا کبھی سوچیں گے؟ کیا ہماری مسلم لیگ (ن) مظفرآباد پر جھنڈا گاڑنا چاہتی ہے یا واقعتاً تحریک آزادئ کشمیر کے بیس کیمپ مظفر آباد کو بنیاد بنا کر سرینگر کو آزاد کرانا چاہتی ہے؟