گئے وقتوں میں پاکستان کا ساحلی پٹی کے کنارے آباد، تجارت و کاروبار کا اہم ترین مرکز، دن کے چوبیسیوں گھنٹے جاگتا شہر کراچی، ‘روشنیوں کا شہر’ کہلاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس خوشحال اور پرامن شہر کو کسی کی نظر لگی اور ایسی نظر لگی کہ اس کا امن اور روشنیاں دونوں ہی ماند پڑگئیں۔ گلی، محلوں میں تاریکی اور دہشت بے خوف رقص کرنے لگے اور روشنیاں و مسکراہٹیں یہاں کا راستہ بھول گئیں۔ہر شام کی صبح لازم ہوتی ہے، لہذا ان حالات نے بھی اللہ اللہ کرکے اہلیان کراچی کو اب کافی حد تک بخش دیا ہے لیکن غافل عوام اور دیکھنے، سننے، سمجھنے کی حسیات سے محروم نااہل حکمرانوں نے کراچی کی قسمت اور مستقبل کو کوڑا زدہ کرکے، ایک تازہ گڑھا کھود لیا ، جس کی گہرائی کا اندازہ لگا پانا تصور سے پرے ہے۔اب عالم کچھ یہ ہے کہ اگر کسی سے پوچھ لیا جائے کہ تصویر کراچی میں زیادہ رنگ روشنیوں سے ہیں یا کچرا کنڈیوں سےتو جواب بے شک و شبہ رنگ برنگے شاپروں سے سجا کچرا ہی آئے گا۔
تفریح اور آکسیجن کاسستا ذریعہ شہر میں موجود گنے چنے پارکس ہوں، یا سائے اور ٹھنڈک کے حصول کے لیے بنائے جانے والے بس اسٹینڈز۔نکاسی آب کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے بنے نالے ہوں یا کسی بھلے مانس کا اپنی جمع پونجی سے خریدا کوئی چھوٹا موٹاخالی پلاٹ۔کسی ریستوران کے عقب میں جانکلیں یا اسپتال کے سامنے سے گزر ہو، گلی سے نکل کر سیدھے ہاتھ کی جانب مڑیں یا الٹے ،ہر جگہ استقبال کی منتظر ہوگی تو ایک کچرا کنڈی۔ آیا اہلیانِ کراچی کو کچرے سے الفت ہے یا کچرے کو اہلیانِ کراچی سے اِس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں۔
یوں تو اس بھرے پرے شہر میں آئے دن بڑی بڑ ی شخصیات کبھی کوئی افتتاح کرنے تو کبھی حاضری لگانےآتی جاتی رہتی ہیں، جس کے باعث کئی اہم شاہراہیں میرے اور آپ کے لیے اکثر مسدود ہوجاتی ہیں اور پھر ہم متبادل راستے پر مسلسل تیسرے گھنٹے اپنی گاڑی میں پھنسے ،سسٹم کی تعریف میں زمین و آسمان کےوہ قلابے ملاتےہیں کہ ۔۔۔ خیر سب ہی مردے قبر کےاحوال سے اچھی طرح واقف ہیں لہذا تفصیل کو خدا حافظ کہتے ہیں۔ہاں توان آنیوں جانیوں کے نتیجے میں عوام کی قسمت تو پھوٹتی ہی ہےلیکن دو چیزیں جو اٹھ جاتی ہیں ان میں سے ایک تو ‘انتظامیہ’ ہےجو خواب غفلت سے چونک کر جاگ اٹھتی ہے اور دوسری شے جس کی قسمت چمک اٹھتی ہے وہ ہوتا ہے اس آنے جانے میں مستعمل ‘راستہ’ یا سڑک جس کے کناروں پر جمع دو ڈھائی فٹ کی کچرے کی ڈھیریاں جب صاف ہوتی ہیں تو سڑک اپنی کشادگی دیکھ کر خود بھی حیران رہ جاتی ہے۔ابلتے گٹروں کے منہ پر بھی گھونگھٹ ڈل جاتے ہیں اور اہم شخصیات کو نظرآتا ہے تو فقط سبز باغ۔
لیکن اسے کراچی کی حرماں نصیبی کہیئے یا جو بھی کہ اب کی بار جب ملک کے سب سے جواں دل وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کراچی کا دورہ کیا تو خوش قسمتی سے اُن کی کھلی آنکھوں نے کراچی کی اہم سڑکوں پر موجود اس کچرے کا نوٹس لے لیا، پھر کیا تھا اپنی برق رفتار فطرت سے مجبور وزیراعلیٰ صاحب نے انتظامیہ کی استطاعت دیکھی نہ بلدیہ عظمیٰ کی خستہ حالی، بس تین دن میں کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کا حکم صادر فرمادیا۔
ایک اندازے کے مطابق، یومیہ بیس ہزار ٹن سے زائد کچرا پیدا کرنے والا شہر کراچی، جس کے کوڑے کو سمٹے کتنے ماہ یا کتنے سال گزرگئے اسے خود بھی یاد نہیں ہوگا یا اب شہر میں شہری زیادہ ہیں یا ان کا پھیلایا ہوا کوڑا اس کا اندازہ لگانا بھی ایک کڑا امتحان ہو۔اسے تین دن میں کچرے سے پاک شاید صرف کمانڈر سیف گارڈ ہی کرسکتا ہوگا اور بدقسمتی سے کراچی میونسپل کے عملے میں کمانڈر سیف گارڈ جیسے ورکرز تو درکنار جیتے جاگتے انسان کام کرتےبھی ہیں یا گھوسٹس کا راج ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔سو حسب توقع تین دن میں کچرا تو کیا صاف ہوتا یہ اندازہ ضرور لگالیا گیا کہ یہ کام اپنے بس کا نہیں ہےباس!
دوست وہی جو مصیبت میں کام آتا ہے اسی لیے سائیں کو فوراً ہی پھرتیلے چینیوں کا خیال ذہن میں آیا اور انہوں نے فرمان نمبر دو جاری فرمادیا کہ اس شہر بے کراں کا کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری چینی کمپنی کو سونپ دی جائے۔تین ہفتوں میں معاہدہ ہو اور اگلے تین ہفتوں میں کچراچی واپس کراچی بن جائے۔ سیانے کہتے ہیں کہ کہنا ہمیشہ کرنے سے آسان ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔شہر قائد کا کچرا حادثاتی طور پر یا غلطی سے تو یہاں کی سڑکوں پر آیا نہیں ہے کہ ایک بار صاف ہوگیا تو مشکل حل ہوجائے۔ یہ کوڑا کرکٹ کروڑوں انسانوں کو سنبھالے شہر کی اپنی پیداوار ہے جو شہر کی آبادی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔بزرگوں کے مطابق، کراچی ہر بار سمندری طوفانوں سے تو ساحل پر موجود عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی کرامت سے بچ جاتا ہے لیکن کچرے کے طوفان سے متعلق راوی اور بزرگ دونوں ہی چپ سادھ لیتے ہیں۔یعنی اس کچرے سے خود ہی نمٹنا پڑے گا، استاد۔جو حال عوام کی مجموعی بے فکری کا ہے بالکل ویسا ہی حال انتظامیہ کی بےحسی کا بھی ہے۔ نہ عوام کچرا مقرر کردہ جگہوں پر پھینکنے پر راضی ہوتی ہے اور نہ انتظامیہ کچرے کو سمیٹ کر مناسب طور پر تلف کرنے کا طریقہ ڈھونڈتی ہے۔ نتیجہ پُرتعفن، شاپروں سے سجے، آلودہ شہر کی صورت ہمارے سامنے ہے، جو اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل کرچکا ہے۔
سوال اٹھتا ہے تو صرف یہ کہ کچراچی کو واپس کراچی کیسے بنایا جائے؟ آئے روز فلاحی تنظیموں کی جانب سے رضاکارانہ صفائی مہمات کی خبریں اخبارات اور بلیٹنز کی زینت بنتی ہیں،صاف کی گئی سڑکیں کچھ عرصہ صاف رہتی بھی ہیں لیکن پھر صورتحال وہی ہوجاتی ہے۔ کوڑے کو نام نہاد لینڈ فل سائیٹس پر پہنچا کر جلادینے یا سمندری پانی میں بہادینے کا مطلب صرف فضائی اور سمندری آلودگی میں اضافہ کرنا ہے۔میگا سٹی کے کچرے سے نمٹنے کے لیے کُل وقتی حل کی ضرورت ہے۔ایک باعمل حل اس کوڑے سے توانائی پیدا کرنا ہےجس کی مثال دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں ملتی ہے جہاں کوڑے کو توانائی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ لیکن ویسٹ ٹو انرجی کو قابل عمل بنانا یقیناً تین ہفتوں میں ممکن نہیں ۔ اس کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، سائیں سرکار کو چینی کمپنی کو معاہدہ دینے کے ساتھ ساتھ بھی اس بارے میں بھی سوچنا چاہیئے تاکہ کراچی چھ ہفتے بعد واپس کچراچی نہ بن جائے۔