دہشت گردی،علیحدگی پسند تحریکیں اور پروپیگنڈہ وار فئیر دور حاضر کی جدید طرز کی جنگوں کی ابھرتی ہوئی اقسام سمجھی جاتی ہیں جس میں دشمن چھپ کر آپ کی پشت پر وار کرتا ہے مگر اس کا ہتھیار اور آلہ کار زیادہ تر مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں۔ دشمن قوتیں آپ کی کمزوریوں کا استحصال کرتے ہوئے معصوم لوگوں کو اپنے گھناؤنے جال میں پھانسنے کے لئے جذباتی نعروں کا استعمال کرتی ہیں۔ ایسی تحریکوں کی تشکیل و ترتیب اور کنٹرول مکمل طور پر باہر سے ہوتا ہے، ان کا نظم و نسق بیرونی آقاؤں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، الغرض یہ صرف کرائے کی کٹھ پتلیاں ہوتے ہیں۔ جن کی خود کی فہم و فراست، سوچ سمجھ، عقل سے پیدل ہوتی ہے، اور ان کا ہر طرز عمل خالصتاً ان کو فنڈنگ کرنے والی قوتوں کی ایماء پر سرزد ہوتا ہے۔ البتہ ان کی آبپاشی متعدد سیاسی و سماجی حلقوں سے ہوتی ہے جن کو پہلے ہی بیرونی قوتوں کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔
علیحدگی پسند تحریکیں شروع میں تو نفرت انگیز بیان بازی، جلسے جلوسوں تک محدود ہوتیں ہیں مگر رفتہ رفتہ ان کی بڑھتی مقبولیت سے متاثر ہو کر ان کو غیر فعال شر پسند/ دہشت گرد تنظیموں کے سپلنٹر سیلز بھی جوائن کر لیتے ہیں۔ جس سے یہ باقاعدہ ایک ‘منظم دہشت گرد تحریک’ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں، ان کی حمایت و آبیاری مسلسل متعدد سماجی حلقوں کی جانب سے جاری و ساری رہتی ہے جو ان کو معاشرے میں جڑیں پکڑنے میں معاونت دیتے ہیں، نیز یہی بین الاقوامی فورمز اور عالمی میڈیا پر ان کی زبان بھی بنتے ہیں۔
چونکہ جوہری و میزائل طاقت کے اس دور میں روایتی جنگیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں اس لئے ان کی جگہ تیزی سے ‘پراکسی’ طرز کی انہی جدید جنگوں نے لے لی ہے۔ کیونکہ یہ نسبتاً زیادہ مہلک ہوتی ہیں مگر اس میں مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے روایتی جنگوں سے نسبتاً زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس میں دماغ دشمن کا مگر ہاتھ ٹارگٹ ملک کے اپنے لوگوں کے ہی ملوث ہوتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ صورتحال حال ہی میں پاکستان میں بھی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ اس کے قبائلی علاقہ جات تیزی سے امن کی جانب لوٹ رہے ہیں اور وہاں لوگ خوف کے سائے سے نکل کر اپنے اپنے معمولات زندگی میں مشغول ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں قبائلی علاقہ جات کو دوبارہ بند گلی کی طرف دھکیلنے کی کوشیش کیونکر ہو رہی ہے؟ اس میں فائدہ آخر کس کا ہے ؟ پاک فوج اور عوام کے مابین بد گمانی کی فضاء پیدا کر کے کس کی دیرینہ خواہشات کی تسکین کی جا رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کہ فی الفور جواب طلب ہیں۔
بلا شبہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات ایک طویل ہولناک جنگ سے گزرے ہیں جس کے ہیبت ناک نقوش تا حال قبائلیوں کی زندگیوں پر موجود ہیں۔ جس کے پیش نظر پاک فوج انہیں واپس نارمل زندگی کی طرف لا رہی ہے وہاں کھیلوں کے میدان بنائے جا رہے ہیں کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کرائے جا رہے ہیں۔ بازار ، اسکول، کالج ،ہسپتال، سڑکیں، صنعتی شہر اور جدید طرز کے کیڈٹ کالجز تعمیرکئے جا رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ‘سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم’ کی جامع حکمت عملی کے تحت ان علاقوں میں بحالی کا ایک منظم پلان و پروگرام زیرِ عمل ہے۔ ایسے میں پشتون تحفظ موومنٹ کا پاک فوج پر بے بنیاد الزامات کے ساتھ سامنے آنا کسی بیرونی سازش کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ جب یہ علاقے شر پسندوں کے شکنجے میں تھے اور ان کی آب و ہوا بارود اور لہو سے تعفن زدہ تھی تب تو ان قبائلیوں کی داد رسی کے لئے کسی تحریک کا آغاز نہیں کیا گیا ؟۔ کوئی جلسے جلوس ٹی ٹی پی کے خلاف منعقد نہیں کئے گئے۔ تب ان کی مدد کو اگر کوئی اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر پہنچا، تو وہ یہی خاکی وردی میں ملبوس مسیحا تھے، کہ جن کی ان گنت جانوں کے نذرانوں اور خون سے آج وہاں سکون ہے۔ اب وہاں امن لوٹ آیا ہےتو منظور پشتین جیسے لوگ اپنے اور اپنے آقاؤں کے مفادات کی دکان چمکانے نکل آئے ہیں۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ فی الحال یہ مٹھی بھر عناصر ہیں مگر کسی بھی خطرے کو کمزور سمجھنا ہرگز عقلمندی کا تقاضا نہیں ہے۔ کیونکہ ہم ابھی بھی حالت جنگ میں ہیں۔ دہشت گردی کا خطرہ ابھی پوری طرح سے ٹلا نہیں ہے۔ ہمارا دشمن ابھی بھی چوکنا ہے وہ پاکستان کو زیر کرنے کے لئے اپنا ہر ہتھیار برؤے کار لائے گا، اپنا ہر وار کرے گا۔ لہٰذا ابھی ہی حکومت کو چاہیئے کہ بنا کسی وقت کے ضیاع کے اس تحریک کے پر پرزے کاٹ دے، کہیں بعد میں یہ بھارتی فنڈڈ لاوہ بھی بلو چستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی طرز کاآتش فشاں نہ بن جائے ۔ نیز نیشنل ایکشن پلان کو فوری طورپر سرد خانے سے نکال کر اس پر عمل درآمد کیا جائے کیونکہ اُسی میں ہی مستقبل میں ایسی صورتحال کے مکمل تدارک کا جامع لائحہ عمل تجویز کیا گیا تھا۔