“یہ ہے وہ جمہوریت اور یہ ہیں انسانی حقوق کے چیمپئن جو ایک دہشت گرد کو بچانے کیلئے عالمی عدالت کی مدد لیتے ہیں، یہ دنیا کیلئے بھی سوال ہے اور ہندوستان کیلئے بھی سوال ہے کہ یہ ہے آپ کی جمہوریت کا مطلب جب ایک دہشت گرد کو آپ تحفظ دیتے ہیں اور جو لوگ حق اور سچ کی آواز اٹھاتے ہیں، ان کو ان کے خاندان سے جدا کیا ہوا ہے، تین سال سے میں نے اپنے شوہر اور میری بیٹی نے اپنے والد کو نہیں دیکھا، وہ تڑپ رہی ہے اپنے باپ کے لئے، لیکن یٰسین صاحب کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی فیملی سے مل سکیں. “
پاکستان کی جانب سے بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کو انسانی بنیادوں پر اپنی والدہ اور بیوی سے ملاقات کی اجازت دی گئی تو اس موقع پر سوشل میڈیا پر مشال ملک کا بھارت اور دنیا کے نام یہ پیغام آپ سب کی نظر سے بھی لازمی گزرا ہوگا. مشال ملک کشمیری حریت پسند رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ ہیں. ان کا تعلق پاکستان کے ایک علمی گھرانے سے ہے، ان کے والد پروفیسر ایم اے حسین ملک ایک ممتاز ماہرِ اقتصادیات اور نوبل انعام کی جیوری کے ممبر کے طور پر خدمات انجام دینے والے پہلے پاکستانی ہیں.
يٰسين ملک کا شمار کشمیر کی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کرنے والے اولین مجاہدین میں ہوتا ہے. اس جرم کی پاداش میں انہیں متعدد بار گرفتار کیا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا. 1990ء کی دہائی میں انہوں نے مسلح جدوجہد کو خیر باد کہہ کر پرامن طریقے سے حصول آزادی کی کوششوں کا آغاز کیا. مگر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک کو پر امن طریقے سے طلب کیا جانے والا بنیادی انسانی حق “آزادی” کا نعرہ بھی برداشت نہیں. اسی جرم کی سزا کے طور پر یٰسین ملک تین سال سے اپنے خاندان سے جدا ہیں!
مشال ملک اس وقت کشمیری عوام خصوصاً خواتین کے لئے ہر فورم پر آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں. وہ خواتین جن میں ہزاروں کی تعداد میں half widows موجود ہیں، جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ حبسِ بےجا میں رکھے گئے ان کے خاوند زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ اس کشمکش میں مبتلا یہ خواتین زندگی کی مشکلات سے اکیلے نبردآزما ہیں. اکثریت اپنے شوہر کی واپسی کی امید پر دوبارہ شادی کے بندھن میں بندھنے سے گریزاں ہیں. حتٰی کہ ان خواتین کے لئے فتوٰی دیا گیا کہ شوہر کے لاپتہ ہونے کے بعد چار سال تک انتظار کے بعد وہ دوبارہ شادی کر سکتی ہیں!
کشمیری عوام اور خواتین کے مصائب کی بالواسطہ اور بلاواسطہ وجہ قابض افواج اور ان کا کالا قانون AFSPA ہے جس کے تحت قابض افواج کو بےپناہ اختیارات حاصل ہیں، وہ کسی بھی کشمیری کو بغیر وجہ کے حبسِ بےجا میں رکھ سکتی ہیں. اور اس کا نتیجہ کشمیر میں ملنے والی گمنام قبریں ہیں. وکی لیکس کے مطابق قابض افواج گرفتار شدگان کو، جو کہ مزاحمت کار بھی نہیں بلکہ کشمیری شہری ہیں، جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں. ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق AFSPA سیکیورٹی فورسز کو، قیدیوں کو، بغیر ٹرائل کے حبسِ بےجا میں رکھنے کا اختیار دیتا ہے. بھارتی فوج ہزاروں کشمیریوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے میں بھی ملوث ہے. لاپتہ کئے جانے والے مردوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کی بیویوں کے لئے “Half widow” کی اصطلاح تخلیق کی گئی. انسان حقوق کے کارکنان کے مطابق لاپتہ کئے گئے افراد کی تعداد 8000 کے قریب ہے. 2011ء کی اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں لاشیں گمنام قبروں میں دفن ہیں. ان 2730 لاشوں میں سے 570 کی شناخت لاپتہ مقامی افراد کے طور پر ہوئی ہے جو کہ بھارتی حکومت کے اس دعوے کی قلعی کھول رہی ہیں کہ یہ افراد غیر ملکی مزاحمت کار ہیں. ایک اندازے کے مطابق ان گمنام قبروں کی تعداد 6000 سے بھی زیادہ ہے.
بھارتی قابض افواج کا ایک اور گھناؤنا ہتھکنڈہ کشمیری خواتین کی آبروریزی ہے. 1993ء کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی افواج “ریپ” کو بطور “جوابی کارروائی” استعمال کر رہی ہیں. پروفیسر ولیم بیکر کے مطابق کشمیری خواتین کی آبروریزی چند غیر منظم فوجیوں کا فعل نہیں بلکہ قابض فوج کی مقامی آبادی کو ہراساں کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کی ایک حکمتِ عملی ہے. انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 150 کے قریب میجر اور اس سے اونچے رینک کے افسران کشمیری خواتین کے خلاف جنسی تشدد میں ملوث ہیں جنہیں بھارت سرکار کی پشت پناہی حاصل ہے.
“ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آزادانہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے طے پائے گا.” لیکن اقوام متحدہ تقسیم برصغیر کے ادھورے ایجنڈے کو مکمل کرنے اور اپنے چارٹر پر موجود دیرینہ ترین تنازعے کو حل کرنے سے قاصر ہے. یہی نہیں بلکہ بھارت کو مقبوضہ وادی میں مزید فوج کی تعیناتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روکنے کیلئے بھی مکمل طور پر بےبس ہے. AFSPA, ریپ اور ٹارگٹ کلنگ کو نہتے کشمیری عوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے اور جبری طور پر آبادی کا تناسب بدلنے والے ملک کے خلاف اقوام متحدہ اور اقوام عالم کی زبان بھلے گنگ رہے، مگر پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت ہر فورم پر جاری رکھے گا اور تب تک جاری رکھے گا جب تک کشمیری اپنا بنیادی انسانی حق “آزادی” حاصل نہیں کر لیتے. کشمیری عوام کے لئے اس آزمائش سے نکلنے کا ایک ہی حکمِ ربّی ہے :
“اے اہلِ ایمان! (کفار کے مقابلے میں) ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کر سکو۔” (سورۃ آلِ عمران۔۔ آیت 200)