1928ء کو ارجنٹینا میں پیدا ہوا۔ اس کے دل میں طب کی تعلیم حاصل کرنے کی لگن تھی۔ اپنی اس لگن کے حصول کے لئے اس نے سفر کئے اور لوگوں کی بھوک اور افلاس دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں اس نے اپنے شوق کو ترک کر کے لوگوں کے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کو ترجیح دی، حمایت حاصل کرنے کیلئے جنوبی امریکہ تک کا سفر کیا۔ اپنی شادی کے بعد اس نے ‘فیدل کاسترو’ کے ساتھ مل کر جنوبی امریکہ کے لوگوں کے لیے انصاف اور برابری کے حقوق کے حصول کی خاطر اور اس وقت کی آمرانہ اور ظالم حکومت سے نجات حاصل کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کی۔ مسلح جدوجہد کے بعد آخر کار وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا، اسے بعد میں کیوبا کے نیشنل بینک کے صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اسے دنیا “چی گویرا” کے نام سے جانتی ہے اور دنیا کے عظیم “فریڈم فائٹرز” میں شمار کرتی ہے!
وہ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوا۔ اپنے لڑکپن کا زمانہ یورپی انقلابیوں کے قصے پڑھ کر گزارا۔ جوانی میں ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن کیلئے کام کیا۔ لالہ راجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کیلئے اس نے ایک برطانوی پولیس افسر کا قتل کیا۔ گرفتاری سے بچنے کیلئے قانون ساز اسمبلی کی عمارت میں دو دستی بم پھینکے اور خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا۔ جیل میں اپنی 116 دن کی بھوک ہڑتال کے ذریعے شہرت حاصل کی جس کا مقصد ہندوستانی قیدیوں کے لیے برطانوی قیدیوں کے مساوی حقوق کا حصول تھا۔ قتل کے مقدمے میں اس پر جرم ثابت ہو گیا اور اسے 1931ء میں تئیس برس کی عمر میں پھانسی دے دی گئی۔ اس کا نام “بھگت سنگھ” تھا جسے فریڈم فائٹر کے طور پر بھارت میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا کانسی کا مجسمہ بھارتی پارلیمنٹ میں نصب ہے!
مندرجہ بالا دونوں شخصیات کی وجۂ شہرت ان کی جدوجہد تھی، جو انہوں نے آزادی جیسے بنیادی حق کی خاطر ایک غاصب کے خلاف کی اور نام کمایا۔
اب ایک اور شخصیت کا احوال سنئے۔
اس نے پلوامہ کے علاقے ترال کے گاؤں دادسرا میں آنکھ کھولی، ایک ایسے خطے میں جو پچھلی کئی دہائیوں سے ایک غاصب ملک کے تسلط میں تھا، اور جس کا مقدمہ اقوام متحدہ میں زیر التوا تھا۔ اس کے والد ایک ہائیر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل تھے۔ اس نے لڑکپن کا زمانہ آزادی کی جدوجہد کو عروج پر پہنچتا ہوا دیکھ کر گزارا۔ پندرہ سال کی عمر میں اس نے آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کا فیصلہ کیا کیونکہ قابض افواج کی جانب سے اس پر اور اس کے بھائی پر کئے جانے والے تشدد نے اس کا دل غیض و غضب سے بھر دیا تھا۔ اس نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں ، اور مقبوضہ وادی کے جوانوں کو مسلح جدوجہد میں شمولیت کی دعوت دی۔ 2015ء میں اس کے بھائی کو قابض افواج نے”ملی ٹینٹس” کا حامی قرار دے کر شہید کر دیا۔ گو کہ قابض انتظامیہ کا کہنا تھا کہ افواج پر ہونے والے کسی بھی حملے کا سرا اس سے نہیں ملتا تھا مگر پھر بھی قابض انتظامیہ کی طرف سے اسے دہشت گرد قرار دے کر اس کا پتہ بتانے والے کے لئے دس لاکھ روپے انعام کا اعلان کردیا گیا۔ 8 جولائی 2016ء کو اسے ایک جعلی مقابلے میں شہید کر دیا گیا۔ اس کا نام “برہان مظفر وانی” ہے، جس کے بارے میں قابض ملک کا اصرار ہے کہ وہ “فریڈم فائٹر” نہیں بلکہ دہشت گرد ہے۔
سات دہائیوں سے جموں وکشمیر کی وادی پر تسلط جمائے اور کشمیریوں کی چھ نسلوں کو ریاستی دہشت گردی کا طوق پہنائے اس غاصب ملک اور اس کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے برہان وانی کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں مقبول بھٹ اور افضل گورو جیسے حریت پسندوں کو قرار دیا گیا تھا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد ممکنہ ردعمل سے بچنے کیلئے وادی میں کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا، لیکن مقبوضہ کشمیر کے باسیوں نے قابض انتظامیہ کے اس بوگس دعوے کو مسترد کردیا جس کے مطابق برہان وانی ایک دہشت گرد تھا! کرفیو کے باوجود بپھری ہوئی عوام سڑکوں پر نکل آئی اور بھارتی افواج کو ان کی بیرکوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور چھرّوں والی بندوقوں کے علاوہ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق اسالٹ رائفلز تک نہتے مظاہرین کے خلاف استعمال کی گئیں۔ برہان وانی کے حق میں اور بھارتی تسلط کے خلاف اٹھی ہوئی اس لہر کو دبانے کیلئے قابض انتظامیہ کو ٹیلیفون، اخبارات، انٹرنیٹ تک سب بند کرنا پڑے، حریت رہنماؤں کو گرفتار اور نظر بند کیا گیا۔ نمازِ عید کے اجتماعات پر پابندی لگائی گئی۔ مسلسل کرفیو کو آج 108 دن مکمل ہو چکے لیکن کشمیریوں کے قابض افواج کے ظلم و ستم کے خلاف غیض و غضب میں کمی نہیں آ سکی۔
دمِ تحریر یہ عالم ہے کہ قابض افواج کی ریاستی دہشت گردی سو سے زائد افراد کی جان لے چکی، ان کی زبان بندی کی کوشش کے نتیجے میں 7000 سے زائد افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، اس بےرحم فوج کی طرف سے استعمال کی جانے والی چھرّوں والی بندوق کے چھرے 800 افراد کی آنکھوں کی بینائی چھین چکے۔ اس جور و ستم میں کسی خاتون، بزرگ شہری، کسی کم سن یا شیر خوار بچے تک سے تخصیص نہیں برتی گئی، جہاں چودہ سالہ انشاء کبھی دیکھ نہیں پائے گی، جہاں چار سال کے بچے بھی اس بربریت سے مستثنٰی نہیں، جہاں بیاسی سالہ بزرگ خاتون کو بھی اس جبر سے استثنٰی حاصل نہیں، جو کہ اقوام متحدہ کے جنگی قوانین کا حصہ ہے۔
اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مسئلِہ کشمیرپچھلی سات دہائیوں سے موجود ہے، لیکن ادھورے ایجنڈے کے طور پر! اقوام متحدہ ابھی تک اس انسانی مسئلے کو حل کرنے اور حسب وعدہ استصواب رائے کروانے میں ناکام ہے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی ناکامی ہے، عالمی برادری کے انسانی حقوق کی حمایت پر سوالیہ نشان ہے۔ کشمیر میں جاری ظلم و ستم پر خاموشی اختیار کرنے والے ممالک کی مجرمانہ غفلت پر سراپا سوال ہے، جبکہ بھارت کی وعدہ خلافی اور بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں ایک طرف تو بھارت نے اسے اقوام متحدہ میں متنازعہ علاقے کے طور پر تسلیم کیا تو دوسری طرف “اٹوٹ انگ” کا راگ الاپ کر کشمیریوں کو نہ صرف ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے، بلکہ استصواب رائے کروانے سے بھی یکسر انکاری ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر انتفاضہ اور برہان وانی کے تذکرے نے بھارت کو تکلیف میں مبتلا کر دیا، جواباً بھارت کا کہنا تھا کہ پاکستان کو برہان وانی جیسے “دہشت گردوں” کو glorify نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن مودی سرکار کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اپنی جان ، مال، اپنی بینائی کسی دہشت گرد کیلئے داؤ پر نہیں لگاتے۔ انہیں آزادی سے ہمیشہ کے لئے محروم نہیں رکھا جا سکتا!
اقوام عالم کی خاموشی اور بھارتی ہٹ دھرمی آئندہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو مزید گم نام قبریں دریافت کرنے اور مزید “آدھی بیوہ” خواتین کی دریافت پر مجبور کرے گی!
کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت، اور پاکستان کا کشمیر پر مؤقف بھارت کو لاکھ بےچین کرے، پاکستان کی کشمیر کے حق میں ہر پلیٹ فارم پر اٹھائی گئی آواز لاکھ بھارت کو تشویش میں مبتلا کرے، لیکن پاکستان کشمیریوں کی حمایت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم ہمیں تکلیف میں مبتلا کرتے رہیں گے، ان شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپردِخاک کیا جاتا رہے گا اور ان شہداء کی یاد ہمارے دل میں روشن رہے گی، کیونکہ بابائے قوم کا فرمان تھا “کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے” لہٰذا کشمیر کی آزادی تک ہماری آزادی بھی ادھوری ہے، کیونکہ دل کشمیر ، جان پاکستان ہے!