دونوں بہن بھائیوں میں کسی بات پر اختلاف ہوگیا۔کمرے میں ہلکی ہلکی خاموشی کا سکوت ٹوٹ رہا تھا،اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ دونوں میں کسی بات پر بحث بڑھ گئی بھائی اپنی ہر بات دلیل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کررہے تھے جبکہ بہن کے پاس ہر دلیل کا جواب موجود تھا۔جب بہن بہت زیادہ جذباتی ہوگئی اور محسوس کیا کہ بھائی کسی صورت بات ماننے پر تیار نہیں تو وہ ناراض ہوگئی اور اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
رات کو کھانے کی میز پر بہن موجود نہیں تھی تو بھائی بہن کو بلانے گئے ، بہن نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔بہن کو منا کر بڑی مشکل سے کھانے کی میز تک لائے اور کھانا شروع کیا تو بہن بھی کھانے لگی۔چند لمحے گزرنے کے بعد بھائی نے بڑی محبت سے بہن کو مخاطب کیا:
”فاطمی!کھانا ٹھیک سے کھاؤ۔تم کمزور ہوتی جارہی ہو۔”بھائی کے منہ سے یہ سننا تھا کہ بہن کے چہرے پر غصے کی جگہ تبسم نے لے لی۔
بہن بھائی کی یہ محبت مثالی تھی۔یہ ایک بہن کی محبت کا نتیجہ ہے جس نے بھائی کو حوصلہ دیا اور تاریخ میں ایک بڑا موقع فراہم کیا۔یہ بہن تھیں محترمہ فاطمہ جناح اور یہ بھائی تھے قائداعظم محمد علی جناح۔قوم محترمہ فاطمہ جناح کو مادرِملت کے لقب سے یاد کرتی ہے۔
31جولائی 1893وہ تاریخی دن تھا جب فاطمہ جناح جیسی قوم کی بہادر بیٹی پیدا ہوئی۔قائد اعظم فاطمہ سے 17سال بڑے تھے۔وہ صرف دو برس کی تھیں کہ والدہ رحلت پاگئیں۔اُس کے بعد بڑی بہن مریم نے ان کو ماں بن کر پالا۔فاطمہ عموماََاپنی بڑی بہن سے اپنے بھائی کے متعلق پوچھا کرتی تھیں۔جب وہ بہن سے پوچھتیں:
”میرا بھائی کیسا ہے؟”
بہن کا جواب ہوتا”چاند کا ٹکڑا،سرو کا بوٹا۔”
ننھی فاطمہ یہ سن کر دور دیس میں بیٹھے اپنے بھائی کا نقش ذہن میں بنالیتی ۔
”اچھا تو بھائی کی باتیں کیسی ہوتی تھیں؟”
”تمھارے بھیا!پڑھتے لکھتے زیادہ ہیں ،البتہ جب باتیں کرنے پر آئیں وتواتنی خوبصورت اور میٹھی کرتے ہیں کہ نیند آجاتی ہے۔”
پھر ننھی فاطمہ نیند کی وادی میں جاکر اپنے بھائی سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگتی۔بچپن ہی سے فاطمہ کو سائیکل چلانے اور چاکلیٹ کھانے کا بہت شوق تھا۔بعض اوقات تو چاکلیٹ کا پورا ڈبہ خالی کردییتیں۔البتہ اپنے عظیم بھائی کی طرح مطالعے کو سب چیزوں پر ترجیح دیتیں۔کتابوں کا شوق بھی انہیں اپنے بھائی کو دیکھ کر ہوا۔
آٹھ سال کی عمر میں والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا ۔اُس زمانے میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔لیکن قائد اعظم اپنے اصولوں کے شروع سے پکے تھے جو سوچتے اُس کو عملی جامہ پہناتے۔1910میں فاطمہ جناح نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔فاطمہ سے قائداعظم کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اکثر مواقع پر وہ انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ۔ہائی کورٹ جانے سے قبل انہیں اپنے ساتھ بگھی میں بٹھالیتے تاکہ وہ اکیلے اداس نہ ہوں۔
1919میں اپنے بھائی سے مشورے لینے کے بعد ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالض کلکتہ میں داخلہ لیا۔فاطمہ نے 1922میں ڈینٹسٹ کی سند حاصل کی۔ قائد اعظم نے جب تحریک پاکستان کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا تو بہن ہر لمحہ اپنے بھائی کے ساتھ شانہ بشانہ رہیں۔قراداد پاکستان کی منظوری کے بعد قائد اعظم کی صحت گرنے لگی تو ایک دن بہن نے پریشانی کے عالم میں کہا:
آپ کی صحت مسلسل گرتی جارہی ہے۔آپ کچھ عرصہ کے لئے آرام کیوں نہیں کرلیتے ؟
بھائی نے جواب دیا
”کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ ایک جرنیل چھٹی پر چلا جائے جب کہ اُس کی فوج اپنی بقاوسلامتی کی جنگ میں مصروف ہو۔”
قائداعظم نے محترمہ فاطمہ جناح کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔
”تفکرات،پریشانیوں اور سخت محنت کے اس زمانے میں جب بھی میں گھر آتا تھا تو میری بہن روشنی اور امید کی تیز شعاع بن کر میرا استقبال کرتی۔اگر وہ میری نگران نہ ہوتی تو میرے تفکرات کہیں زیادہ ہوتے،میری صحت کہیں زیادہ خراب ہوتی۔اس نے کبھی شکایت نہیں کی ۔اُس کے سارے حسن سلوک سے زیادہ میری ساری تکلیفیں دور ہوجاتیں۔”
مادر ملت کی قربانیوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ایک بہن کی انتھک محنت سے ہی پاکستان معرض وجود میں آیا ،اگر وہ نہ ہوتیں تو شاید قائد اعظم سیاست میں وہ لافانی کردار ادا نہ کر پاتے،جو انہوں نے انجام دیا
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی رہی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدورپیدا