7 ستمبر 1965ء پاک فضائیہ کا دن تھا، جس دن اس نے دشمن کے 31 طیارے مار گرائے. جنگِ ستمبر میں بھارتی فضائیہ کی عددی اور تکنیکی برتری کے باوجود پاکستانی ہوابازوں اور پاک فضائیہ کے عملے نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا. یہی وجہ ہے کہ 7 ستمبر قومی سطح پر “یومِ پاک فضائیہ” کے طور پر منایا جاتا ہے. بقول ائیر چیف مارشل نور خان :
“جب حد سے زیادہ مشکلات کا سامنا تھا تب ہمارے بہت سے رفیقی، منیر اور اقبال نے کسی ہچکچاہٹ، خوف یا شبہے کا اظہار نہیں کیا بلکہ صرف حملے پر اصرار کیا. یہ وہ جذبہ تھا جس نے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم اس سے زیادہ کر دکھائیں جس کا ہماری عسکری توقیر ہم سے تقاضا کرتی ہے اور جس کے ذریعے ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا. “
اس روز کو یادگار بنانے میں جن ہوابازوں کی جرأت اور جاں نثاری قابل ذکر ہے ان میں ایک ناقابلِ فراموش نام سیسل چودھری کا ہے، جن کے کارنامے پاک فضائیہ کی جنگی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں.
سیسل چودھری 27 اگست 1941ء کو سلسلہ کوہ نمک کے چھوٹے سے گاؤں دلوال میں پیدا ہوئے، بعدازاں ان کے والدین لاہور منتقل ہو گئے. ان کے والد نے سینئر سائنس ٹیچر کے طور پر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا مگر ان کا شوق فوٹوگرافی تھا، اور ان کی وجۂ شہرت تحریکِ آزادی کے اولین وقت کی تصویری کوریج تھی. لہٰذا انہوں نے فیض احمد فیض اور میاں افتخار الدین کے قائل کرنے پر فوٹوگرافی کو اپنا پیشہ بنا لیا اور “پاکستان ٹائمز” کے چیف فوٹوگرافر کے طور پر ریٹائر ہوئے. سیسل چودھری نے ابتدائی تعلیم سینٹ انتھونی سکول سے حاصل کی.
وہ 11 سال کی عمر میں ائیر سکاؤٹ بن گئے. ان کے مشاغل میں ائیروماڈلنگ اور گلائڈنگ شامل تھے. 1956ء میں انہوں نے صدرِ پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا سے گلائڈر پائلٹ وِنگ کا اعزاز حاصل کیا. یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے پاک فضائیہ کا فائٹر پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا.. وہ مارچ 1958ء میں پاکستان ائیر فورس اکیڈمی کے انجینئرنگ پروگرام میں بھرتی ہوئے اور ائیروناٹکس اور مکینیکل انجینئرنگ میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی. 1960ء میں جیٹ کنورژن مکمل کی جہاں انہوں نے ایف 86 بیسک ویپن کورس مکمل کیا. 1961ء میں سرگودھا میں تعینات ہوئے.
کم بلندی پر پرواز کرتے ہوئے اگر طیارے کے انجن میں آگ بھڑک اٹھے تو اس وقت وہی طریقہ کار اپنایا جاتا تھا جو امریکی فضائیہ میں رائج تھا، کہ طیارے کو زیادہ سے زیادہ بلندی پر لے جا کر پائلٹ کاک پٹ سے چھلانگ لگا دے مگر اپنی تکنیکی معلومات کی بنا پر سیسل چودھری کا ماننا تھا کہ طیارے کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ ایمرجنسی ایندھن کو استعمال کر کے لینڈ کر سکے، مگر نوجوان افسر کے طور پر وہ صاحب اختیار افسران کو قائل کرنے میں ناکام رہے. مگر ایک بار جب کم بلندی پر پرواز کرتے ہوئے انہیں ایسا ہی حادثہ پیش آیا تو وہ ایمرجنسی ایندھن کا استعمال کرتے ہوئے بحفاظت لینڈ کرنے میں کامیاب رہے اور پاک فضائیہ کا ایک قیمتی طیارہ بھی تباہ ہونے سے بچا لیا. تب سے یہ طریقہ کار بدل دیا گیا اور سیسل چودھری کو چیف کی طرف سے تعریفی سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا.
1965ء میں وہ فلائٹ لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز تھے. 6 ستمبر 1965ء کو جنگ شروع ہونے کے بعد انہیں ہلواڑہ ائیر بیس پر حملے کا حکم ملا. تین ایف. 86 پر مشتمل فارمیشن گروپ کیپٹن سرفراز رفیقی کی قیادت میں ہلواڑہ کی طرف عازم سفر ہوئی، ان کے تیسرے ساتھی فلائٹ لیفٹیننٹ حسن تھے. ائیر بیس پر ان کا سامنا دس بھارتی ہنٹر طیاروں سے ہو گیا. مسلسل فائرنگ سے سرفراز رفیقی کے طیارے کی گنز جام ہو گئیں تو انہوں نے سیسل چودھری کو قیادت سنبھالنے کا حکم دیا اور خود انہیں عقب سے تحفظ فراہم کرتے رہے. فلائٹ لیفٹیننٹ حسن ایک اور ہنٹر کے تعاقب میں دور نکل گئے اور بعد ازاں ان کا کچھ پتہ نہ چل سکا. ہنٹر اور سیبر کا کوئی مقابلہ نہیں مگر سیسل چودھری نے دشمن کے دو ہنٹر طیارے مار گرائے اور ہلواڑہ کی فضا میں تب تک ڈٹے رہے جب تک بھاری ہنٹر طیارے منہ موڑنے پر مجبور نہ ہو گئے. اپنی فارمیشن کے ساتھیوں سے رابطہ ختم ہونے کے باوجود وہ اپنی بیس پر پہنچنے میں کامیاب رہے. اس حملے میں حصّہ لینے والے تینوں ہوابازوں کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ جرأت سے نوازا گیا.
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ان کے سکوارڈن کے ذمہ فلائنگ انٹرڈکشن (جس میں دشمن کی ان تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو فوری نہیں مگر مستقبل میں خطرے کا باعث بن سکتی ہیں) اور close support مشن تھے. ان کے سکوارڈن کی قیادت وِنگ کمانڈر علی امام بخاری کر رہے تھے. جنگ کی مایوس کن صورتحال کے باوجود پاک فضائیہ کی کارکردگی حوصلہ افزاء تھی. 7 دسمبر 1971ء کو ایک “search and destroy” مشن کی قیادت کے دوران ان کا طیارہ ظفروال شکر گڑھ سیکٹر میں دشمن کا نشانہ بن گیا. انہوں نے کاک پٹ سے ایک نو مین لینڈ میں چھلانگ لگا دی، پیراشوٹ کُھلنے کے ابتدائی جھٹکے سے ان کی دو پسلیاں ٹوٹ گئیں مگر وہ اپنی بیس پر پہنچنے میں کامیاب رہے اور زخمی ہونے کے باوجود بقیہ جنگ میں فلائنگ جاری رکھی. اس حادثے کے محض چار دن بعد ان کی مڈبھیڑ پانچ بھارتی SU_7 طیاروں سے ہو گئی، جن میں سے ایک کو سیسل چودھری نے مار گرایا جبکہ ونگ کمانڈر علی امام بخاری نے ایک طیارے کو مار گرایا جبکہ دوسرے کو نقصان پہنچایا.
سیسل چودھری عراق میں بطور ڈیفینس اتاشی تعینات رہے، 1986ء میں بطور گروپ کیپٹن پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد بقیہ زندگی ماہرِ تعلیم کے طور پر گزاری. وہ 13 اپریل 2011ء کو لاہور میں خالقِ حقیقی سے جا ملے.
بطور فائٹر پائلٹ ان کی پیشہ ورانہ زندگی نہ صرف پاک فضائیہ کے ہوابازوں کیلئے مشعلِ راہ ہے بلکہ ان لوگوں کیلئے بھی راہ نما ہے جو پاک فضائیہ کا حصہ بننے کا خواب دیکھتے ہیں.
آج یومِ پاک فضائیہ کے موقع پر قوم نہ صرف سیسل چودھری، سرفراز رفیقی اور ایم ایم عالم جیسے ہوابازوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے بلکہ جنگ میں حصہ لینے والے گمنام ہیروز، جیسا کہ ریڈار کنٹرولرز جنہوں نے تکنیکی برتری کے باوجود کئی مواقع پر بھارتی کنٹولرز کو مات دی اور وہ ائیر مین جنہوں نے نقصان زدہ طیاروں کو ریکارڈ مدت میں دوبارہ پرواز کے قابل بنایا، کو بھی سلام پیش کرتی ہے جن کی قابلیت اور پیشہ ورانہ دیانتداری کے بغیر اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کا مقابلہ ممکن ہی نہ تھا!
جنگِ ستمبر میں حصہ لینے والے پاک فضائیہ کے تمام بہادروں کو پاکستانی قوم کا سلام!