81 افراد کے جاں بحق اور 437 کے زخمی ہونے کے بعد بالآخر انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہنچی، اور بالآخر پاکستان اس فیصلہ کن صبح کا انتظار کر رہا ہے جب کروڑوں لوگ سنہ 2013 کے انتخابات میں اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
کیا جمہوریت نے ہمیں اپنا متوقعہ پھل دیا ہے؟ کیا اس اندھے نظام نے 20 کروڑ لوگوں پر انتخاب کا سوال داغنے کے بعد جواب کو ہمیشہ سے زیادہ دھندلا کر کے ہمیں ساڑھے چھ دہائیوں کے اس طویل سفر میں کوئی فائدہ پہنچایا ہے؟ کیا ہم کئی دہائیوں تک اس جمہوی نظام کو گلے لگانے کے بعد ایک خوشحال، خوش وخرم اور مطمئن قوم بن سکے ہیں؟ کیا ہم اپنے پرانے آقاؤں کے فراہم کردہ اس نمونے پر ثابت قدم رہنے کے بعد آج بحیثیتِ قوم مزید طاقتور، مزید باوقار، اور قابلِ فخر ہو سکے ہیں؟ اس کا واضح اور آسان جواب نفی میں ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ طاقت کی اس اندھی جنگ میں لگاتار تبدیلیوں کے نتیجے میں ابھرنے یا وجود میں آنے والے امکانات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے 20 کروڑ افراد کے سامنے یہ سوالیہ نشان رکھنا فساد کو اعلی ترین سطح پر پنپنے کا موقعہ دینے کے مترادف ہے۔ عملی طور پر ہوا بھی یہی ہے: وسیع پیمانے پر دھاندلی، مشکوک سودے، نشستوں پر سمجھوتے، خاندانی رعب ودبدبہ کا غلط استعمال، سادہ لوح عوام کو عارضی وعدوں کی بنیاد پر جھوٹٰی امیدوں سے باندھنا، رشوت، بڑے پیمانے پر بے بنیاد وعدے اور نہ جانے کیا کیا۔ یہ سب اس نظام کا ایک بنیادی جزو بن چکا ہے جو ہماری اشرافیہ کے خیال میں عین سیاست ہے۔
لیکن اب پاکستان کی عوام کو کیا کرنا ہو گا؟ اب جبکہ ڈھاکہ کا سقوط پہلے ہی ہو چکا ہے، اب جبکہ عراق اور افغانستان ہماری نظروں کے سامنے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے بے دردی سے توڑے جا رہے ہیں، اب جبکہ شام دو سالوں سے خاک وخون میں لت پت ہے، اب جبکہ عرب سپرنگ تحریک نے اپنے موجدین کو بھی یکساں طور پر ناقابلِ یقین صورتِ حال بلکہ مزید بد عنوانی کا شکار بنا دیا ہے۔ حالیہ منظر نامہ میں ہماری عوام کے سامنے دو راستے ہیں۔ یا تو ہم بھی عرب سپرنگ تحریک کی طرح بغاوت پر اتر آئیں، یہ ثابت ہو جانے کے بعد بھی کہ یہ تمام تحریکیں بڑے پیمانے پہ اغوا ہوئیں اور ہمارے سلسلے میں بھی اس کا قوی امکان ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم ایک ناممکن کو کر دکھائیں!
ہمیں اس نا ممکن کو ممکن کر دکھانا ہو گا، تاکہ ہم حقِ رائے دہی کا بہتر استعمال کر کے اس نظام کے پاؤں پر اسی کی کلھاڑی سے ضرب لگا سکیں، موجودہ صورتِ حال کو بدل کر اپنے مطلق العنان جمہوری حکام پر ثابت کر سکیں کہ ہم نے اگر تمہیں اقتدار دیا ہے تو وقت آنے پر نکال باہر کرنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ چنانچہ حقیقی بغاوت کے لئے ہنوز تیار نہ ہونے کی صورت میں بھی ہمیں اس خاموش انقلاب سے ہاتھ کھینچنے کی ضرورت نہیں۔ اس خاموش انقلاب کے بموجب ہم اپنے ہم وطنوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ انہیں سمجھداری سے کام لینا ہو گا، ہر ووٹ کے پیچھے ایک سمجھدار شہری کو موجود ہونا ہو گا۔ جی ہاں! یہی وہ نا ممکن ہے، جس کا طبقہء اشرافیہ کو کبھی شبہ بھی نہیں ہوا تھا۔ ان کے خیال میں ہر ووٹ کے پیچھے ایک سمجھدار شہری کبھی نہیں ہو گا لہذا وہ ہمیشہ ہیر پھیر کر سکیں گے۔
لیکن کیا پاکستانی قوم آج اپنے آپ کو سکھا سکتی ہے کہ جمہوریت 5 سالوں تک سیاست دانوں کو کوڑے لگاتے رہنے کی طاقت کا نام ہے؟ کیا ہم سیکھ سکتے ہیں کہ جس نے بھی غلطیاں کی ہیں انہیں آئندہ کبھی بھی اپنا قیمتی ووٹ نہ دیں؟ تمام امکانات میں سے سب سے زیادہ قابلِ اعتماد کو ووٹ دیں، 5 سالوں تک اس کے پیچھے پڑے رہیں اور اگر وہ اس قابل نہ ہو تو اس کو نکال باہر کریں۔ یہ طنز کا نہیں، بلکہ انتہائی درجہ کی ماضی فہمی اور خوفِ خدا کا معاملہ ہے۔
پی کے کے ایچ پاکستان کی عوام سے اپیل کرتا ہے کہ نہ صرف قومی بلکہ عالمی منظر نامے میں بھی ان انتخابات کے اثرات سے مکمل طور پر آگاہ رہیں۔ ہم اپنے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اب وہ معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں، اور آئندہ 5 سالوں کے عرصہ میں اپنے سیاست دانوں کو معیاری اختلاف اور سخت جانچ پڑتال کے ذریعہ سے مستقل عوامی طاقت کے کوڑے کا احساس دلاتے رہیں۔ اگر ہم ایک مسلم قوم ہیں اور مسلم امت کا اٹوٹ حصہ ہیں تو اسی کو اپنا ووٹ بنائیں، اور ایک بیدار قوت بن جائیں جو اپنے حکام کو بھی پسندیدہ صحیح راستے ہر چلنے پر مجبور کرے، اور مزید 5 سالوں کے لئے جمود کے ہاتھوں تباہ ہونے کے انتظار میں غیر فعال بیٹھنے سے توبہ کریں۔
پی کے کے ایچ ہم سب کے آقا، سب سے زیادہ طاقتور، سب کچھ سننے اور سب پر دسترس رکھنے والے، سب سے عظیم اللہ پر ایمان رکھنے والی پاکستانی عوام سے یہ بھی اپیل کرتا ہے کہ آج ہم سب اکٹھے ہو کر اللہ کو پکاریں اور خلوصِ دل سے دعا کریں کہ ایک قوم اور عالمی برادری کے ایک حصہ کی حیثیت سے اس مشکل مرحلہ میں ہماری مدد کرے۔ اپنے بے حد وحساب فضل وکرم سے اپنے بندوں کو قرطبہ، غرناطہ، اور اجنادین کی آن بان اور شان لوٹا دے، اور اس زوال اور تباہی سے محفوظ رکھے جس کا ان قوموں کو اپنے ظالم اور غیر مہذب حکمرانوں کے ہاتھوں سامنا کرنا پڑا۔ آئیے ہم آج دعا کریں کہ اللہ ہمیں ان زندہ قوموں میں سے کر دیں جو اپنے حکمرانوں کو سیدھے راستہ پر رکھتی ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر قسمت کا انتظار نہیں کرتیں۔ ان شاء اللہ اور آمین۔
اسلام زندہ باد! پاکستان پائندہ باد!