اقتصادی راہدری منصوبہ پاکستان کے غیر معمولی جغرافیائی محل وقوع کی بین الاقوامی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے- جنوب مشرقی ایشیاء کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ سے تجارت کرنی ہو یا سفارت یا جنگی مہمات، پاکستان کی اہمیت مسلّمہ ہے-اپنی طرز کا یہ منفرد جغرافیہ پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بھی ہے ، ہردور میں بین الاقوامی رسہ کشی اور تقریباً ہر بڑی طاقت کی پاکستان میں دلچسپی اورکھلی یا چھپی مداخلت کا باعث، یہ جغرافیہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک خطے میں ہونے والی ہر مرکزی چھوٹی بڑی تبدیلی کا جوہری موجب، گواہ اور راہگزر رہا ہے- چاہے وہ سرد جنگ کے دنوں میں سیٹو اور سینٹو کا قیام ہو یا سرخ چین سے باہر کی دینا کا رابطہ یا چاہے سوویت یونین کا انہدام، پاکستان کا کردار اس کے منفرد محل وقوع کی وجہ سے انتہائی کلیدی رہا ہے-
کئی اعتبار سے راہدری منصوبہ پاکستان کی اقتصادی اور معاشی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ہے- تزویراتی و معاشی دونوں سطحوں پر اس عظیم منصوبے کے اثرات دور رس اور مثبت ہونے کی توقع ہے – مثلاً راہدری سے جڑے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے منصوبے ملک میں جاری توانائی کے بحران کے سدباب میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جلد ان میگا پراجیکٹس کی تعمیر کے ذریعے روزگار کے نئے پیدا ہونے والے امکانات پاکستان کے پیشہ ور ہنرمند افرادی قوت کےلیے ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوں گے- تعمیراتی شعبے میں متوقع بھاری سرمایہ کاری ملکی معیشت میں موجود جمود کو توڑ کرمثبت معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا باعث بنے گی ، جس سے مجموعی ملکی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہونے کی قوی امید ہے- سرمائے کی منصفانہ گردش سے وجود میں آئی پرامید آبادی کی موجودگی کسی بھی ملک کا بڑا سرمایہ ہوتی ہے-اور یہ ہی اقتصادی راہدری کا سب بڑا تحفہ ہے کے اس منصوبے کی ممکنہ کامیابی نے عشروں سےبحران در بحران کے بھنور میں گھری ایک نیم خوابیدہ قوم کو امید کے ساحل کی جھلک دکھائی ہے اور اکثریت اس سنہری ساحل تک پہنچنے کو بے تاب ہے-
گوادر بندرگاہ کا آپریشنل ہونا اور اقتصادی راہدری کا کامیاب افتتاح بے شک پاکستان کی تاریخ کا ایک خوش آیئند باب ہے-بھارت اور امریکہ جیسے علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کی کھلی مخالفت اور اس کے اظہار کے لیے ریاستی دہشت گردی کے آلے کے تواتر سے استعمال کے باوجود ایک قلیل مدت میں اس قدر بڑے اور حساس منصوبے کے ابتتدائی ڈھانچے کی تکمیل اور افتتاح پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت مبارکباد کی مستحق ہے-یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نیک نیّتی، سنجیدگی اور یکسوئی کو بروئے کار لا کر بحیثیت قوم پاکستانی عوام اور ارباب اختیارکسی بھِی چیلنج سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں-ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کثیرالجہت منصوبے سے حاصل ہونے والے تزویراتی معاشی فوائد کو ملک کی سماجی معاشرتی ترقی میں استعمال کیا جائے-انصاف ،تعلیم، صحت عامہ، گورننس اور زراعت کے شعبوں میں سرکاری سرپرستی میں ہنگامی سطح پر قلیل و طویل مدتی اقدامات کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے درکار سرمائے کا حصول اقتصادی راہدری سے کیا جانا عین ممکن ہے-
علاقائی تزویراتی صورتحال کے پیچیدہ تناظر میں جہاں ایک طرف پاکستان کے مغرب میں افغان سرزمین پر امریکی سرپرستی میں بڑھتا بھارتی اثرورسوخ اور اسکے نتیجے میں افغان قیادت کا سخت ہوتا پاکستان مخالف مؤقف سلامتی کے اداروں کے نقطۂ نظر سے باعثِ تشویش ہے ، وہیں یہ امر خوش آِئند ہے کہ بطور توازن پاکستان کے جنوب مغرب میں ایرانی زعماء وقت کے ساتھ اس حقیقت کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں کہ اقتصادی راہدری کی تعمیر خطے کی مجموعی بہبود کے لیے ایک بہتر قدم ہے جس سے منسلک ہوکر ایران بھی ازحد مستفید ہوسکتا ہے- اقتصادی راہداری سے جڑنے کی حالیہ ایرانی خواہش کا اظہار اسی منطقی ادراک کا مظہر ہے- روس کا راہدری سے متعلق مثبت طرز عمل اور اسکا عملی حصہ بننے کا ارادہ آنے والے دور کے نقشے کی ایک واضح تصویر تشکیل دے رہا ہے جس میں مضبوط علاقائی تجارتی بلاکس خطے میں مذموم امریکی عزائم اور ان کے علمبردار بھارت کو کھلا سیاسی و تجارتی چیلنج دیتے نظر آتے ہیں-
روس، چین پاکستان، ایران، مشرق وسطٰی کے باہمی تعاون سے اس تجارتی راہداری کا مستقبل کافی سے زیادہ روشن دِکھ رہا ہے- یہ نکتہ بعید ازقیاس نہیں کہ یہ تمام تجارتی شراکت دار ممالک اقتصادی راہداری سے منسلک ہونے کے باعث بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر بھی باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے سیاسی مددگار ثابت ہوں گے جو آخری تجزیے میں موجودہ عالمی غیرمنصفانہ نظام کے چوہدریوں اور ان کے پٹھؤوں کے لیے کے ایک برا خواب ثابت ہوگا- معاشی اور فوجی سطح پر تیزی سے ترقی کرتے چین اور ایک بار پھر سر اٹھاتے روس کی واضح تزویراتی شراکت داری خطے میں نیٹو کی عسکری بالادستی اور امریکی مفادات کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے -جس کے سدباب کے لیے امریکی اشرافیہ بھارتی کندھوں کا استعمال جاری رکھے گی- دوسری جانب امریکی خواب کا بھارتی رومان بھی اپنی پوری آب وتاب سے جاری ہے جس کا مظاہرہ امریکی صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیر متوازن اور جارحیت کے حامی امیدوار کو ملنے والی بھارتی لابی کی کھلی مدد سے کیا جاسکتا ہے- امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کا گٹھ جوڑ باقی دینا کے لیے عدام استحکام کا پروانہ ہے-
بین الاقوامی صورتحال اور بدلتی سیاسی درفطنیوں سے قطع نظر گوادر اور اقتصادی راہدری منصوبے فی الحال اپنی ابتدائی بینادی تکمیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں- جس کو ناکام بنانے کے لیے مخالفین پہلے ہی سے میدان میں مصروف ہیں- بھارت سے ملحقہ سرحدوں پر جاری مسلسل کشیدگی، بھارت کی جانب سے ۲۰۰۳ کی جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، بلوچستان اور ملحقہ علاقوں میں زور پکڑتی حالیہ دہشت گردی اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے دوبارہ پیش آتے واقعات اس نکتے کی جانب واضح اشارہ کرتے نظرآتے ہیں کہ پاکستان مخالف قوتیں آج بھی ہر اس ممکن حکمت عملی کو استعمال کریں گی جو پاکستان کو غیر مستحکم کرے اور ہر اس منصوبے اور نشان کو نشانہ بنانے کے درپے رہیں گی جو پاکستانی عوام کے درخشاں مستقبل کی نوید بن سکتا ہے-
اقتصادی راہدری اور اس سے متعلقہ منصوبوں اور گزرگاہوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا پاکستان کے سلامتی کے اداروں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے -گو کہ موجودہ گورننس کے نظام جس میں پولیس محض ایک سیاسی مہرے کے طور استعمال ہوتی ہے، قابلیت اور اہلیت کو بیناد بنا کر پولیس کے ادارے کی تشکیلِ نو اور کمیونٹی پولیس جیسے تصورات کی عملی سطع پر عملدرآمد کی صورت کو ممکن بنانا قدرے مشکل کام ہے لیکن ناممکن نہیں-سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر خیبر پختونخوا کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے تمام صوبو ں میں پولیس کو امن و امان، ریاستی اور شہری اثاثوں کی اولین دفاعی لکیر بنانے کا عمل شروع کیا جانا چاہیے- مقصد سیاسی مداخلت سے پاک عوامی تحفظ کا علمبردا ایک ایسے ادارے کا قیام ہوناچاہیے جو ہر قسم کی سیاسی آلائش کی مداخلت سے ماورا ہوکر ہر خاص و عام کے لیے اپنے یکساں طرزعمل کے ذریعے سماجی انصاف اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے- اسی زمرے میں سول اینٹلیجنس کے کردار کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عسکری اداروں پر سے بوجھ کم ہو اور وہ اپنے اصل فرض یعنی بیرونی طالع آزماوں پر کڑی نظر رکھ سکیں-
کہانی ابھی شروع ہوئی ہے- گوادر کا آپریشنل ہونا محض ابتداء ہے ، ابھی اس سے آگے کا طویل و کٹھن سفر درپیش ہے جس کے لیے عزم و زادِراہ جمع کرنے کی تیاریوں کو عملی شکل دینا بحثیت قوم ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے- ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں -گوادر اور اقتصادی راہدری منزل نہیں- نشان منزل ہیں
چینی لوگوں کے پاکستان میں کثیر تعداد میں آنے سے دو مختلف تہذیبوں کے درمیان پائے جانے والے فطری اختلاف کو پاکستانی معاشرے میں قبول ملنے میں وقت لگے گا ۔ کچ اختلافات منظر پر آنا شروع ہو چکے ہیں ۔ ان واقعات میں اضافے کو روکنے کےلیے کسی مرکزی فورم پر ضوابط بنانے کی ضرورت ہے ۔ مثلا عوامی جہگوں پر شراب نہ پینا اور چینی خواتین کا ہمارے معاشرے میں قابل قبول لباس جئسے قواعد بنانا ضروری ہے ۔
دوسرا اہم معاملہ جس پر عوام میں بے چینی موجود ہے ، کہ چینی کمپنیاں اور سرمایہ دار اہم بڑے پراجیکیٹس کے علاوہ ذاتی زمین خرید رہے ہیں ۔ انکی قوت خرید زیادہ ہونے کی وجہ جب تک سی پیک مکمل فعال ہوگا سی پیک کے روٹس اور خاص طور پر گوادر میں قیمتی زمین کا زیادہ تر ملیکت چینیوں کے پاس ہوگی ۔
اور پاکستان کےلوگ سی پیک سے اس طرح مستفید نہیں ہو سکیں جس طرح سوچا جا رہا ہے ۔
اس معاملے پر قانون سازی کرنی چاہیے ۔ ٍ