3جولائی2015 میں سپریم کورٹ میں این جی اوز رجسٹریشن کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جناب جواد ایس خواجہ صاحب نے نہایت ہی اہم ریمارکس دیتے ہوئےانکشاف کیا تھا کہ “نیشنل ایکشن پلان” عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے بنایا گیا، نیشنل ایکشن پلان ایک مذاق ہے، ٹکے کا کام نہیں ہو رہا۔ ان کے کے یہ ریمارکس پاکستان کی موجودہ صورتحال کی مکمل ترجمانی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ اس وقت “دہشت گردی” عالمی توجہ کا حامل مسئلہ ہے اس لئے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے ضمن میں لئے گئے چند نام نہاد اقدامات( نیشنل ایکشن پلان، ملٹری کورٹس وغیرہ) بھی عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئےہیں۔ اسی لئے انہیں محض ایک خانہ پُری نہیں گردانا جا سکتا کہ جن کو صرف وقتی فوقیت دی جائے، اور جیسے ہی لوگ دہشت گردی کا وہ مخصوص واقعہ بھولیں ویسے ہی انسداد دہشت گردی کے اقدامات بھی سردخانے کی نذر کر دئیے جائیں لہٰذا اب حکومتی ایوانوں کے لئے اس بات کا ادراک کرنا ناگزیر ہو چکا ہے کہ انسداد دہشت گردی پر نہ تو وہ اپنی قوم کو چکما دے سکتے ہیں نہ وہ اقوامِ عالم سے نظریں بچا کر پتلی گلی سے ہی نکل سکتے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ ایک پیچدہ سائنس ہے۔ ہارڈ اور سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم اسکی کلیدی حکمت عملیاں تصور کی جاتی ہیں۔ اور ایک مستند تحقیقی مقالے کے مطابق ان دونوں حکمت عملیوں کا تناسب بالترتیب اسی اور بیس فی صد ہونا چاہیے۔”ہارڈ کاؤنٹر ٹیررازم” میں بذریعہ فوج، جدید ہتھیاروں کو بروئے کار لاتے ہوئے، شرپسندوں کی مبینہ طاقت کو کمزور کیا جاتا ہے۔ کومبنگ آپریشن،طیاروں سے بمباری وغیرہ ہارڈ کاؤنٹر ٹیررازم میں ہی شامل ہے۔ اور یہ حکمت عملی صرف اتنا ہی وقت فراہم کرسکتی ہے کہ سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم کی حکمت عملی پر عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکے۔ غیر فوجی ذرائع یعنی میڈیا کمپینز، آئی ڈی پیز کی بحالی، سول سوسائٹی میں انتہاپسندی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لئے متعدد سماجی اقدامات اور متعلقہ قانون سازی وغیرہ کے علاوہ،انسداد دہشت گردی کے قومی بیانیے کی ترویج و تشہیر”سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم” تصور کی جاتی ہے۔ اورپاکستان کےنیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات اسی زمرے میں مشمول کیے جاتے ہیں۔ جو کہ پاکستان کی داخلی سیکیورٹی کے موجودہ صورتحال سے بھی عین مطابقت رکھتےہیں۔ اور اگر ہارڈ کاؤنٹر ٹیررازم کے نتیجے میں حاصل ہونے والے بیش قیمت وقت کو ضائع کر دیا جائے اور سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم (یعنی نیشنل ایکشن پلان) پر عمل درآمد اُس محدود وقت میں کسی بھی وجہ سے نہ ہو سکے تو” ٹیرر ویو” (دہشت گردی کی لہر) دوبارہ رواج پانے لگتی ہے(جو کہ ” ہارڈ کاؤنٹر ٹیررازم” یعنی ملٹری آپریشنز کے نتیجے میں شرپسندوں کو بھاری نقصان پہنچنے کے باعث پہلے مدھم یا سست ہوئی ہوتی ہے)۔مگر سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم پرعدم عمل درآمد کے باعث شر پسندوں کو دوبارہ سے طاقت پکڑ نے کا خاطر خواہ وقت مل جاتا ہے۔ یقینی طور پر ابھی پاکستان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے، اور ہوتا رہے گا جب تک کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو سمجھ نہیں لیتی اور نیشنل ایکشن پلان پر بلا تفریق اور بلا امتیاز کاروائی نہیں کرتی۔
مگر ہمارے ہاں تو عجیب ہی منطق رائج ہے، جیسے ہی دھماکے ہونے بند ہو جاتے ہیں ہماری حکومت یہ تصور کر لیتی ہے کہ امن قائم ہوچکا ہے۔ اور اسی لئے وہ نہ تو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا ضروری سمجھتی ہے اور نہ وہ ملٹری کورٹس ہی کی مدت میں توسیع کرنے کے حوالے سے سنجیدہ نظر آتی ہے۔ بلکہ سونے پر سہاگہ یہ کہ اسکے اہم ترین حکومتی اتحادی سرعام ان قومی اہمیت کے حامل مسائل کے خلاف بیانات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں، ںیشنل ایکشن پلان میں کوئی خامی نہیں ہے بلکہ مسئلہ تو صرف اور صرف اس پر عدم عمل درآمد کا ہے- اگر اپ اسکے بیس (نقاط) نکات کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ سوائے چند چیدہ چیدہ باتوں کے کسی پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا جن میں
کریمنل جسٹس سسٹم کی اصلاحات، افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور پنجاب میں دہشت گردوں کے گڑھوں کے لئے عدم برداشت کو فروغ دینے اور ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کی فنڈنگ اور نیکٹا کو فعال بنانے جیسے نازک اقدامات شامل ہیں۔
اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ فوج صرف پاک-افغان باڈر کے آر پار شر پسندوں کی مبینہ آماجگاہوں پر گولے برسا کر” ٹیرر ویو” (دہشت گردی کی لہر) کو وقتی طور پر غیر فعال کر سکتی ہے اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ انسداد دہشت گردی کی سائنس کے رُو سے اسکے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اور اگر پھر بھی وہ نیشنل ایکشن پلان پر بزورِ طاقت عمل درآمد کرانے کی کوشش کرتی ہے تو فوج پر اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ اس لئے ہم سب کو اس تلخ حقیقت کو باور کرنے کی ضرورت ہے کہ معصوم جانوں کا ضیاع اسی طرح تب تک ہوتا رہے گا، کہ جب تک ہماری حکومت اپنے کندھوں کا بوجھ فوج پر ڈال کر اپنا گزارہ چلانے کی روش کو ترک نہیں کرے گی کیونکہ حقیقی انسداد دہشت گردی “سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم” ہی ہے اور جس پر سبھی اتنے برسوں سے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ اس لئے اگر ابھی بھی ہوش کی ناخن نہ لئے گئے تو مستقبل قریب و بعید دونوں میں ایسی کئی اور ٹیرر ویوز کاسامنا (خدانخواستہ) پاکستان کو کرنا پڑ سکتا ہے۔