سوات جسے پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے سرسبز وشاداب میدانوں، خوبصورت مرغزاروں اور شفاف پانی کے چشموں سے مالا مال ہے۔ دنیا کے حسین ترین خطوں میں شمار کیا جانے والا یہ علاقہ، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ صوبائی دارلحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170 کلو میٹرہے۔ سنہ 2007ء سے سنہ2009ء کے درمیان دہشت گرد تنظیم ٹی این ایس ایم (تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی) کے بانی صوفی محمد اور اس کے داماد ملا فضل اللہ کی زیر قیادت طالبان نے سوات میں نظام عدل اور نفاذ شریعت کی آڑ میں ایک گھناؤنا کھیل رچا کر اس پوری وادی کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ اور یوں جولائی سنہ 2007ء میں جنوبی ایشیاء کی یہ خوبصورت ترین وادی موت اور تباہی کی وادی میں تبدیل ہو گئی۔ جہاں سیاحوں کی بجائے خوف کے سائے منڈلانے لگے۔ اور بچیوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانا بند کر دئیے گئے۔ اور ٹی وی سیٹس، سی ڈیز اور کمپیوٹرز کو حرام قرار دے کر نذرِآتش کرنا شروع کر دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بچیوں کے اسکولوں اور سی ڈیز کی دکانوں میں دھماکے ہونے لگے اور پولیس اور سیکورٹی فورسز پر خود کش حملے روزانہ کا معمول بن گیا۔
ملا فضل اللہ کی کھڑی کردہ دہشت گرد “شاہین فورس” نے طالبان کمانڈر سراج الدین کی زیر قیادت بالائی سوات کے اسکولوں، ہسپتالوں اور سرکاری دفاتر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ جہاں پاکستان کے قومی سبز ہلالی پرچم کو ٹی این ایس ایم کے سیاہ اور سفید پرچم سے تبدیل کر دیا گیا۔ اس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے کے لئے اس وقت کی نگران حکومت نے تقریباً25000 کے قریب سپاہیوں پر مشتمل پاک فوج کے دستے وادئ سوات روانہ کئے۔ جن کی کارروائی کے بعد ملا فضل اللہ کے بہت سے ساتھی مارے گئے اور وہ خود فرار ہو گیا۔ اس کارروائی کے دوران تقریباً 13 پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو چارباغ اورمٹہ کے علاقوں میں بے دردی سے جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا۔ اور یہیں سے ہی پا کستان میں دہشت اور بربریت کے ایک ایسے باب کا آغاز ہواجس میں پاکستان کے متعدد سول اور عسکری کرداروں نے تاریک راہوں پر جانیں نچھاور کر کے بہادری اور دلیری کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اوراس لئے ہم سے ڈومور کا مطالبہ کرنے والوں پر یہ لازم ہوتا ہے کہ پاکستان کے ان شہریوں،فوجی افسران اور جوانوں کی لہو سے لکھی گئی منفرد داستانوں کو پڑھیں اور اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر خود سے سوال کریں کہ کیوں ان کی ڈیرھ لاکھ کے قریب فوج، بے تحاشہ وسائل اور وسیع بجٹ کے باوجود افغانستان میں نہ تو امن قائم کر پائی اور نہ طالبان کے زیر تسلط علاقوں کا کنٹرول حاصل کر سکی؟؟؟
بہرحال، سوات میں ملا فضل اللہ دوبارہ سرگرم ہوا اس نے پاکستانی ریاست اور اس کے نظام کے خلاف کھلم کھلا جنگ کا اعلان کر دیا جو اس کے شر انگیز نکتۂ نظر میں غیر اسلامی اور غیر شرعی تھا۔ حالات مزید بگڑتے گئے مگر اسی دوران حکومت اور دہشت گرد تنظیم ٹی این ایس ایم کے بانی صوفی محمد کے مابین ‘امن معائدہ’ طے پاگیا۔ اسی اثناء میں طالبان کی جانب سے ایس ایس جی (اسپیشل سروسز گروپ) کے 4 اہلکار بھی حراست میں لئے گئے جب وہ خوازہ خیلہ بازار میں معمول کے مطابق خریداری کرنے میں مشغول تھے۔ اگرچہ ان اہلکاروں کے پاس اسلحہ موجود تھا مگر پھر بھی انہوں نے امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ہر گز کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ اور خود کو چپ چاپ طالبان کے حوالے کر دیا۔ ان ایس ایس جی کے چار اہلکاروں میں سے ایک کیپٹن نجم ریاض راجہ شہید بھی تھے جنہوں نے اپنے کردار اور عمل سے پاک فوج کے بعد میں شہید ہونے والے نوجوان آفیسرز کے لئے ایک ایسی مثال چھوڑی جو سب کے لئے باعث تقلید بنی۔ اور آج اسی لئے ہم سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے آفیسرز کی شہادتوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
کہوٹہ سے تعلق رکھنے والے اس پاک فوج کے آفیسر نے اپنی ابتدائی تعلیم ملٹری کالج جہلم سے حاصل کی جو کہ پاک فوج کی نرسری تصور کی جاتی ہے۔ بعد ازاں پاک فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد کیپٹن نجم نے رضاکارانہ طور پر خود کو ایس ایس جی سروس کے لئے پیش کیا۔ جو عسکری تربیت سازی کے حوالے سے انتہائی دشوارگزار اورکٹھن انتخاب سمجھا جاتا ہے۔ مگر کیپٹن نجم نے اس تربیت کی ہر مشکل کو آسانی سے عبور کیا اور ایک نڈر، سخت جان کمانڈو بن کر ابھرے۔ جس کا ثبوت انہوں نے اُن بائیس 22 دنوں میں دیا جو انہوں نے اپنے چار دیگر ساتھیوں سمیت طالبان کی حراست میں گزارے۔
ان کی بڑی ہمشیرہ مسز وحیدہ عامر کے مطابق ان کے خاندان کو ان کی حراست کا علم پاک فوج سے نہیں بلکہ دنیا ٹیلی وژن کے اس براہ راست نشر کئے جانے والے انٹر ویو سے ہوا جو بہت عرصے تک علمی حلقوں میں زیرِ بحث رہا اور ابھی انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ دوران حراست کیپٹن نجم کو اپنے گھر والوں سے بذریعہ ٹیلی فون بات چیت کی اجازت تھی ۔ مگر انہوں نے اپنی گفتگو میں کبھی بھی اپنے گھر والوں پر عیاں نہیں ہونے دیا کہ وہ طالبان کی حراست میں ہیں اور نہ ان کے خاندان نے ان پر ظاہر کیا کہ وہ سب جانتے ہیں۔
کیپٹن نجم کی ہمشیرہ کے مطابق ان کے بھائی ان 22 دنوں میں بہت باہمت اوربا حوصلہ رہے نہ تو ان کا ایمان ڈگمگایا نہ ان کے پاؤں لڑ کھڑائے۔ بلکہ وہ انہیں تاکید کرتے رہے کہ اگر انہیں کچھ ہو جائے تو کبھی بھی پاک فوج کو برا بھلا نہ کہا جائے کیونکہ وہ پاک فوج کو اپنا حقیقی خاندان تصور کرتے تھے۔ یہاں واضح رہے کہ یہ تذکرہ سنہ 2009ء میں اپریل کے آخری اور مئی کے اوائل کے دنوں کا ہے جب پاکستان کے حالات بہت خراب تھے اور سرعام میڈیا پر پاک فوج کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جانا معمول سمجھا جاتا تھا ۔
اس دوران کیپٹن نجم کے ایک بھائی اور چھوٹی بہن ملک سے باہر قیام پذیر تھے جنہیں وہاں ان کے موبائل فونز پر طالبان کی جانب سے پیغامات موصول ہوئے۔ طالبان یہ سب پریشر ٹیکٹکس کے لئے کر رہے تھے تا کہ ان چار اہکاروں کے بدلے ان کی حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل طے پا جائے۔ جو کہ ممکن نہیں ہوئی۔ اسی اثناء میں کیپٹن نجم اور ان کے دیگر ساتھی طالبان کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوئے اور انہوں نے ایک قریبی گاؤں میں پناہ لی۔ مگر وہاں ان کی مخبری ہو گئی اور انہیں وہاں سے بھی بھاگنا پڑا مگراسی دوران ان کا ایک ساتھی ٹانگ پر گولی لگنے کے باعث زخمی ہو گیا اورزمین پر گر گیا۔ اس نے کیپٹن نجم سے کہا، “سر آپ جائیں، مجھے یہیں چھوڑ دیں”۔ مگر کیپٹن نجم ریاض شہید ایک حقیقی کمانڈو تھے وہ کیسے اپنے ساتھی کو وہاں اکیلا چھوڑ سکتے تھے۔ لہٰذا وہ سب اپنے زخمی ساتھی کو بچانے کے چکر میں دوبارہ طالبان کی گرفت میں چلے گئے۔ اب ان کی فون پر گھر والوں سے بات چیت ہونا بھی بند ہو گئی۔ کیونکہ طالبان کو سمجھ میں آچکا تھا کہ حکومت پاکستان اور پاک فوج ان ظالمان سے کسی بھی قسم کی کوئی سودے بازی نہیں کرے گی۔
اب کیپٹن نجم اور ان کے دیگر تینوں ساتھیوں کو الگ الگ جگہوں پر حراست میں رکھا گیا تھا۔ ایک دن انہیں معلوم ہوا کہ صبح طالبان ان سب کو ذبح کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور ان کے دیگر ساتھیوں کو ذبح کر بھی دیا گیا۔ مگر جب طالبان کیپٹن نجم کو لینے کمرے میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کس ماں کے شیر کو للکار رہے ہیں۔ کیپٹن نجم نے ایک ایک کر کے (کمرے میں انہیں لینے کے آنے والے) آٹھ دہشت گردوں کی گردنیں توڑ کر انہیں جہنم واصل کر دیا۔ اوراسی اثناء میں پاکستان کا یہ عظیم لخت جگر کمرے کے باہر کھڑے دہشت گرد کی فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہو گیا۔ اور بالآخر 11مئی سنہ 2009ء میں پاک فوج کے اس 24 سالہ نوجوان آفیسر کو اپنے آبائی علاقے کہوٹہ میں پورے عسکری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔
گو کہ کوئی بھی دنیاوی تمغہ یا اعزاز کیپٹن نجم کی قربانی اوربے مثال بہادری کے شایان شان نہیں مگر بعد از شہادت کیپٹن نجم ریاض راجہ شہید کو حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی ملک و قوم کے لئے خدمات اور عظیم قربانی کے اعتراف میں تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔
کیپٹن نجم نے اپنے ساتھیوں سمیت جان کے نذرانے تو پیش کئے مگر واضح رہے ان چاروں سپاہیوں کی قربانی ہی تھی جو سوات کو طالبان کے ناپاک قدموں سے پاک کرنے کے لئے آپریشن راہِ نجات اور راہِ راست کا موجب بنی۔ یہ آپریشن آج دنیا بھر کی متعدد ملٹری اکیڈمیز میں ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔ جس نے جنت کا نظارہ پیش کرنے والی اس وادی(سوات) کو خوف کے سایوں سے نکال کر دوبارہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
آج ہم سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور ہماری افواج اور آئی ایس آئی پر دہشت گردوں سے روابط ہونے کےالزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ اس فوج پر الزامات لگائےجاتے ہیں جس نے کیپٹن نجم سمیت اپنے چار بیٹے شہید کروا دیئے مگران کی جانوں کے بدلےطالبان سے کسی قسم کی سودے بازی نہیں کی۔ لیکن کہیں نہ کہیں تو کوتاہی ہماری بھی ہے کیونکہ بد قسمتی سے ہم آج تک دہشت گردی خلاف جنگ میں اپنی قربانیاں اور اپنے نڈر ہیروز کی کارنامے اس طرح دنیا کے سامنے نہیں لا پائے جس طرح امریکہ اپنے سپاہیوں کی کہانیاں عالمی جنگوں کے بعد اور ابھی افغان جنگ کے حوالے سے منظر عام پر لاتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پروپیگنڈہ وار کا دور ہے۔ جس میں زمینی کارروائی کے علاوہ ذہن سازی اور مثبت سوچ کی نشونما اور ترویج پر بھی توجہ دینا لازم ہوتا ہے۔ اور جہاں ہم شاید بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ کام صرف پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا نہیں بلکہ ہمارے پرائیویٹ میڈیا بشمول فلم انڈسری اور ڈرامہ انڈسٹری کا بھی ہے کہ وہ آگئے آئیں اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی کاوشوں اور قربانیوں کو فلمانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ دنیا بھی جان سکے کہ پاکستان دہشت گرد ریاست نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ریاست ہے۔