آج نو نومبر ہے، علامہ اقبال کا یوم پیدائش، جنہیں بیسویں صدی کے عظیم شعراء، فلسفی اور مفکرین میں شمار کیا جاتا ہے۔ جن کے ہاں موضوعات کی وہ وسعت ہے، جو انہیں کسی ایک زمانے تک محدود نہیں رہنے دیتی۔ گو کہ انہیں ہمارے “قومی شاعر” کا مقام حاصل ہے، لیکن شاعری کے علاوہ بھی وہ اپنے فلسفے اور افکار کے ذریعے مختلف موضوعات پر جامع اور بلیغ قسم کا اظہار خیال کرتے رہے ہیں، جس سے شاید ہماری اکثریت ناواقف ہے۔
ان موضوعات میں ایک موضوع جسے وہ بہت اہمیت دیتے پائے جاتے ہیں، وہ ہے عورت کا مقام، اپنی شاعری میں وہ عورت کے مقام کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں
” وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں”
عورت کی حفاظت کے حوالے سے وہ شاعرانہ زبان میں یوں رقم طراز ہیں
“اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ، جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد!”
تو دوسری طرف وہ اپنے فلسفے میں بھی اس موضوع پر مشرق و مغرب کے عوام کی کچھ ان الفاظ میں رہنمائی کرتے پائے جاتے ہیں۔
“میں چاہتا ہوں کہ مشرق میں عورت کے مقام اور مغربی خواتین سے ان کے تقابل کے بارے میں کچھ نکات کی وضاحت کروں۔ لندن کی گلیوں میں مَیں بہت سی چیزیں دیکھتا ہوں جن پہ لندن کے رہائشی غور نہیں کرتے۔ وہ مناظر سے اتنے واقف ہیں کہ نزاکتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ لیکن وہ لوگ جو ایک ملک کو طویل غیر حاضری کے بعد دیکھتے ہیں وہ ایک توانا بصارت کے ساتھ آتے ہیں۔
جو بات مجھے سب سے زیادہ حیرت میں مبتلا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ صنفِ نازک کیلئے برتی جانے والی شائستگی، جس کے لئے یورپ کے لوگ کسی زمانے میں مشہور تھے، وہ اب قدیم ہو گئی ہیں۔ انڈر گراؤنڈ اسٹیشن میں مرد حضرات اپنی نشستیں خواتین کے لئے نہیں چھوڑتے، یا بہت کم ایسا کرتے ہیں۔ کار سے نکلتے وقت وہ نہیں سوچتے کہ خواتین کو پہلے نکلنے دیا جائے۔ میں ان کو موردِ الزام ٹھہرانا نہیں چاہتا۔ اس سب کی ذمہ داری خواتین پر عائد ہوتی ہے۔ وہ آزادی، مردوں کے مساوی حقوق چاہتی تھیں۔ جو تبدیلی آ چکی ہے وہ ناگزیر تھی۔
شاید میں کوشش کروں اور یورپ کے مشرقی خواتین، اور سب سے پہلے مسلمان خواتین کے بارے میں قائم کردہ قطعی غلط تصورات کا خاتمہ کر سکوں۔ یورپی عورت، اپنی خواہش کے مطابق، اس پیڈسٹل سے اتر آئی ہے جس پہ وہ براجمان تھی، لیکن مشرقی مسلمان خاتون اسی عزت کی وصول کنندہ ہے جیسا کہ پہلے تھی۔
یورپ میں ابھی بھی اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ تُرکوں کی زندگی میں تُرکی کی عورت ایک ادنٰی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ ہماری بہت سی رسومات، خاص طور پر پردے کی نفسیات کا غلط مفہوم لیتے ہیں۔ پردے کا نقطۂ آغاز مرد کا حسد نہیں، بلکہ یہ احساس ہے کہ عورت مقدس ہے، اتنی زیادہ کہ کسی غیر کی نظر بھی اس پر نہیں پڑنی چاہیے۔ لفظ “حرم” کا عربی زبان میں مطلب ہے ” پاکیزہ جگہ” جس میں کوئی اجنبی داخل نہیں ہو سکتا۔
پردے کے استعمال کی دوسری وجوہات بھی ہیں۔ یہ حیاتیاتی ہیں، جنہیں یہاں زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا۔ عورت زندگی میں بنیادی طور پر تخلیقی عنصر ہے، اور قدرتی طور سب تخلیقی قوتیں پنہاں ہوتی ہیں۔
وہ عظیم تر احترام جو مشرقی خواتین کو حاصل ہے، اس کا منبع و علامت پردہ ہے۔ اس عزت کو ختم کرنے کیلئے جو صدیوں سے قائم ہے، کچھ بھی وقوع پذیر نہیں ہوا، اور ان کی نامحرموں کی دسترس اور ہر قسم کی ذلت سے حفاظت کا اصول محفوظ طور پر قائم ہے۔ اسلام کی مقدس کتاب کے مطابق عورتوں کو ممتاز کرنے سے متعلق کئی قواعد ہیں۔ پردہ ان میں سے محض ایک ہے۔ ایک اور حکم یہ ہے کہ جب مرد اور عورت ملاقات کریں تو انہیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگر یہ عالمگیر سطح پر لاگو ہو جاتا تو عام پردہ غیر ضروری ہو جاتا۔
بھارت میں بہت سی خواتین اور دوسرے اسلامی ممالک کی خواتین پردہ نہیں کرتیں۔ پردہ حقیقتاً ایک خاص ذہنی رویے کا نام ہے۔ اس ذہنی رویے کو تقویت دینے کے لئے کچھ خاص وضع کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وضع ہر انسان کے حالات، عمر اور ملک پہ منحصر ہے۔
حرم کو بھی بدنام کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے یہ بیان کیا جانا ضروری ہے کہ صرف بادشاہوں کے حرم ہوا کرتے تھے۔ جب میں خواتین اور اس عزت کی بات کر رہا ہوں جو ہم انہیں دیتے ہیں، آپ کثرتِ ازدواج کے بارے میں سوچیں گے۔ شریعتِ محمدی کے مطابق ایک سے زائد شادی یقیناً جائز ہے۔ یہ ایک سماجی برائی یعنی عوامی عصمت فروشی سے بچ نکلنے کا صرف ایک طریقہ ہے ۔ یک زوجگی ہمارے لئے بھی آپ ہی کی طرح مثالی ہے، لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ اس میں زائد خواتین کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے۔
قرونِ وسطٰی میں یورپ میں زائد خواتین کے لئے خانقاہیں اور ڈیرے آراستہ کئے گئے تھے۔ لیکن آپ آج کے یورپ میں اس طریقے کی پیروی نہیں کر سکتے۔ نام نہاد صنعتی انقلاب ۔۔۔۔ نام نہاد خواتین کی آزادی کے سرپرستوں نے مرد اور عورت دونوں کو اس قسم کی ذہنیت دے دی ہے جو ظاہری طور پر کثرت ازدواج کے خلاف ہے، لیکن مجھے ڈر ہے کہ سماجی بُرائی اپنی جگہ موجود ہے۔ میں ایک سے زائد شادیوں کو واحد حل کے طور پر پیش نہیں کر رہا، لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ وہ معاملات، جو خواتین کو اپنی روزی کمانے کی طرف لے گئے ہیں، خوفناک ہیں، اور آہستہ آہستہ خواتین کو ان کے بہترین سے محروم کر دیں گے۔۔۔۔ یعنی ان کے اندر کی عورت سے۔
تاہم کثرت ازدواج بھی اسلام میں ایک ابدی قانون نہیں ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق ، ہر قسم کی شرعی اجازت ریاست کی طرف سے منسوخ کی جا سکتی ہے ، اگر وہ سماجی بدعنوانی کی وجہ بن رہی ہیں تو۔ شریعت محمدی کے مطابق ایک عورت کو اپنے بچوں کی تحویل کا حق طلاق کے بعد بھی حاصل رہتا ہے۔ وہ اپنے نام سے تجارت، معاہدے اور مقدمے کر سکتی ہے۔ کچھ قانون سازوں کے مطابق وہ خلیفۂ اسلام بھی منتخب ہو سکتی ہے! وہ اپنے شوہر سے نفقے کی حقدار ہے، جسے محفوظ بنانے کے لئے وہ شوہر کی ساری جائیداد اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔
اسلام میں طلاق کے قوانین بھی دلچسپی کے حامل ہیں۔ مسلمان عورت کو طلاق کے معاملے میں مرد کی برابری حاصل ہے۔ تاہم اسے محفوظ بنانے کیلئے شادی کے وقت بیوی کی طرف سے شوہر کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا طلاق کا حق اسے، اس کےوالد، بھائی یا کسی اجنبی کے سپرد کر دے۔ تکنیکی زبان میں اسے “تفویض” کہا جاتا ہے یعنی حوالے کرنا یا منتقل کرنا۔ حفاظت کا یہ چکر کیوں اپنایا گیا ، اس کی وجہ میں یورپ کے قانون دانوں کے سمجھنے کیلئے چھوڑتا ہوں۔”
(علامہ اقبال کا یہ مضمون اصل میں the Liverpool post میں 1932ء میں شائع ہوا تھا۔ )