“میرا نام کمانڈر کلبھوشن یادیو ہے۔ میں انڈین نیوی کا حاضر سروس آفیسر ہوں۔ میرا سروس نمبر ۔۔۔۔ ” یہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک سال قبل چمن کے علاقے سے گرفتار ہونے والے جاسوس کے اعترافی بیان کا ایک حصہ ہے جو یقیناً آپ سب سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہوں گے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ویڈیو جاری کی گئی جس میں کراچی میں تخریب کاری اور دہشت گردی جبکہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی امداد کا اعتراف کیا گیا۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی حکومت نے حسب دستور کلبھوشن کو “حاضر سروس” اور “جاسوس” ماننے سے انکار کردیا، جوابی دعوٰی یہ کیا گیا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کا “ریٹائرڈ آفیسر” ہے جسے پاک فوج نے”ایران” سے تحویل میں لیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کلبھوشن یادیو نے پونے سے اپنا جعلی پاسپورٹ حاصل کیا جس پر اس کا نام “مبارک حسین پٹیل” درج ہے، جبکہ بھارتی انٹیلیجنس بیورو کے مطابق کراچی میں قیام کے دوران کلبھوشن یادیو کی سرویلنس کی جا رہی تھی اور اپنے خاندان سے رابطے پر مراٹھی زبان بولنے کی وجہ سے اس کا “کور” “بلو” ہو گیا۔
دنیا بھر کے ممالک غیر ملکی جاسوسوں کو کڑی سے کڑی سزا دیتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے معاملے میں اعترافی بیان کے بعد فوجی عدالت میں ایک سال تک مقدمہ چلا، جس کے بعد پاکستانی فوجی عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنائی۔
کلبھوشن کی سزا کا اعلان ہونے کی دیر تھی کہ بھارتی اعلی حکام اس کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے۔ سشما سوراج صاحبہ نے اسے “بھارت کا بیٹا” قرار دیتے ہوئے اسے بچانے کیلئے ہرحد تک جانے کا عندیہ دیا جبکہ بی جے پی کے وزیر سبرامانین سوامی کا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن کو پھانسی دی گئی تو بھارت کو چاہیے کہ بلوچستان کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کر لے، اور یہ کہ یہ قدم پاکستان کے چار ٹکڑے کرنے کی ابتداء ہوگا۔ منطقی طور پر دیکھا جائے تو بھارتی وزراء کے بیانات تضاد لئے ہوئے ہیں، ایک طرف تو ان کا کہنا ہے کہ کلبھوشن ایک “عام” بھارتی شہری ہے، ایک عام بھارتی شہری سے اگر بھارت سرکار کو اتنی ہی ہمدردی ہے تو اپنے “نام نہاد اٹوٹ انگ” کے نہتے کشمیریوں کو کو اتنی بےدردی سے شہید اور نابینا کیوں کر رہا ہے؟ اور اگر وہ ایک عام شہری نہیں ہے، جو کہ اس کے اپنے بیان سے بھی ظاہر ہے تو پھر سشما سوراج صاحبہ اور سبرامانین سوامی صاحب کو “بھارت کے بیٹے” کیلئے پاکستان سے “رحم کی اپیل” کرنی چاہیے۔
بلوچستان میں بھارتی دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، جہاں بھارت علیحدگی پسند تنظیموں کی پشت پناہی میں ملوث ہے اور دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تناظر میں بلوچستان کی ترقی اور منا بھارت کو ہضم نہیں ہو رہا اور اب بھارتی وزیر کے بیان کے بعد بلوچستان کی بدامنی میں ملوث “بیرونی ہاتھ” کے بارے میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ بھارت کی طرف سے “جواب آں غزل” کے طور پر بلوچستان کا ذکر اکثر ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر لائن آف کنٹرول کے اس پار مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی پر آواز بلند کی جائے تو جواب آتا ہے کہ بلوچستان میں بھی تو ظلم ہو رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے خلاف بات کی جائے تو جواب دیا جاتا ہے کہ بلوچستان کو تو دیکھئے، وغیرہ وغیرہ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کے بجائے اپنی اداؤں پر غور کرے، کیونکہ کسی اور کے عرض کرنے پر یقیناً اسے شکایت ہوگی!
مثال کے طور پر خالصتان تحریک جو پھر سے سر اٹھا رہی ہے، یا پھر مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاوہ وہ ریاستیں جو بھارت کا حصہ ہونے کے باوجود آزادی کی خواہاں ہیں مثلاً اسام، ناگالینڈ، مانی پور، تری پورہ۔ جہاں 1990ء کی دہائی سے پبلک سیفٹی ایکٹ کا کالا قانون نافذ ہے ۔ عقل کا تقاضا تو یہ تھا کہ بھارت اپنے اندرونی مسائل سے نمٹنے کو پہلی ترجیح دیتا مگر بھارت سرکار کا سارا زور ہمسایہ ریاستوں سے چھیڑ چھاڑ کے بعد جنگ بندی معاہدوں پر ہی رہا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو پس پشت ڈال کر اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دیتا ، مقبوضہ جموں وکشمیر کے سرینگر کے الیکشن میں سات فیصد ٹرن آؤٹ سے آئینہ دیکھتا اور اٹوٹ انگ کی گردان کے بجائے حسب وعدہ استصوابِ رائے کا انعقاد کرتا۔ یا پھر بھارتی “ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ” اپنے کارندوں کو پاکستان کے بجائے اسام، اروناچل پردیش ، ناگالینڈ یا تری پورہ جیسی ریاستوں میں “رعایا” کی “بےچینی” کے “اسباب” کا پتہ لگانے اور ان کا تدارک کرنے کے لئے بھیجتا، مگر ایسا مستقبل قریب میں ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ بھارتی زعماء اپنی غلطیوں سے بھی سبق نہیں سیکھا کرتے۔
کلبھوشن یادیو کو ملنے والی سزا پر بھارتی تلملاہٹ بےوجہ نہیں، ایک طرف ایک حاضر سروس آفیسر کی گرفتاری پر بھارت کو سبکی اٹھانا پڑی ہے تو دوسری طرف کلبھوشن کے پاکستان میں “بھارتی ریاستی دہشت گردی” کے اعتراف نے بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بےنقاب کر دیا ہے۔ پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور جاسوسی کی پاداش میں کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ شاید وہ وقت آ گیا ہے کہ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک میں دخل اندازی کے بجائے اپنے معاملات سنوارنے پر توجہ دے، ورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے ممالک کے ٹکڑے کرنے کی خواہش میں اپنے حصے بخرے کروا بیٹھے کیونکہ “ہر عمل کا ایک برابر اور متضاد ردعمل ہوتا ہے” جو کہ ایک عالمگیر سچائی ہے۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ بھارت پاکستان میں جعلی پاسپورٹ اور دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو ہوا دینے کی نیت سے آنے اور رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے “بیٹے” کیلئے رحم کی اپیل کرے۔ اور جہاں تک بات ہے ہر حد تک جانے کی تو یقیناً پاکستانی بارڈر سے اڑ کر ہندوستان میں داخل ہونے والے ہمارے کبوتروں کو بھارتی پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے ہاتھوں کافی مشکل اٹھانی پڑ سکتی ہے!