اکثر جب بھی ان لوگوں کی کسی بات کو رد کرنے کا سوچتا،تو وہ تمام لوگ سامنے آ کھڑے ہوتے، جن کے لئے ان کے تمام اقدامات اس لئے قابلِ قبول تھے، کہ شاید کسی وقت میں ہماری طرف سے کسی نے ان پر مظالم ڈھائے ہیں، جن کا بدلہ ہمیں معصوموں کی لاشوں کی صورت میں چُکانا پڑ رہا ہے۔
بارہا دفعہ ان خُرافات کے جواب میں دلیلیں دینا اور پھر اُن دلیلوں کی دھجیاں اِن کے ہمنواؤں کے ہاتھوں بکھرتے دیکھنا بھی ایک روٹین سی بن گئی تھی۔
وہ حملے کرتے، کسی مارکیٹ پر، کسی بازار پر، کسی فوجی کانواۓ پر، کسی مسجد پر، ہماری طرف کے لوگ فوراً کمر بستہ ہو جاتے، ان کے چہروں پر پڑے نقاب نوچنے پر، اُن کے بوگس خیالات کو رد کرنے پر، تو ساتھ ہی اُن کے ہمنوا کبھی لال مسجد تو کبھی ڈرون حملوں میں”شہید” ہونے والوں کا تذکرہ چھیڑ بیٹھتے، تو کبھی قبائل کو آگ اور خون کے کھیل کا حصہ دار بنانے کا ذمہ دار ٹھہراتے۔
الغرض، اُن کی کارروائی،ہماری جوابی کارروائی، اور ان کا جوابی ٹھٹھا۔ اور عوام الناس کا ہمیشہ کی طرح کنفیوژن کا شکار رہنا،کس کا ساتھ دیں، وہاں بھی لاالٰہ کا نعرہ بلند ہوتا ہے، یہاں بھی، وہاں بھی اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے،یہاں بھی، وہاں تو بلکہ لمبی داڑھیاں، گھنے بال، اونچے تہبند اور بڑی پگڑیاں ہیں،یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں،سو کس کی طرف دِل مائل کریں؟
کہیں سے آواز آجاتی کہ خارجی ہیں،ان کی لمبی داڑھیاں،گھنے بال اور اونچے تہبند دھوکا ہیں، شیطان کا وار ہیں، مگر کنفیوژن۔۔۔۔ اس کا کیا کریں؟
پھر یہ دل سوز واقعہ، پشاور کا واقعہ جب شروع ہوا تو میں نے روٹین کے حملوں کی طرح اسے بھی ایک سائڈ پر رکھ دیا کہ ابھی چند لمحوں میں سب دَب جائے گا، اور بہت سے حملوں کی طرح یہ بھی ایک حملہ بن کر رہ جائے گا،آخر کو اس سے پہلے اسلامی یونیورسٹی میں بھی تو حملہ ہوا تھا،اس سے پہلے بحریہ یونیورسٹی میں بھی تو حملہ ہوا تھا،وہ مُون مارکیٹ میں بھی تو حملہ ہوا تھا ناں۔۔۔۔ تو پھر یہ کیسے مختلف ہوگا؟
مگر جُوں جُوں وقت گزرتا گیا،اس واقعے کی سُرخیوں نے آنکھوں تک کو سُرخ کر دیا، اس قدر انسانیت بھی گِر سکتی ہے، یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
فوراً میڈیا اور سوشل میڈیا کی طرف رجوع کیا،کہ شاید کوئی بات مل جائے،مگر وہاں پر پھر سے وہی بحث، کوئی اسے انسانی تاریخ کا بد ترین سانحہ قرار دے رہا تھا،تو کوئی اس کے حق میں دلائل۔ ہاں البتہ ہمنوا اس بار کچھ شرمندہ شرمندہ سے تھے،مگر بَل ابھی بھی باقی تھے۔
اس کیفیت میں سیرت کے کچھ اوراق کی طرف کسی نے توجہ دلوائی، دو واقعات سامنے سے گزرے، اور ذہن سے ہر پراگندگی چھٹتی چلی گئی۔
قریشِ مکہ کا مجمع گرم ہے، بیچ میں ایک شخص کو باندھ کر کھڑا کیا گیا ہے، کمسن نوجوانوں کی ایک ٹولی کو اسی بات پر معمور کیا گیا ہے کہ وہ نیزے کی انی سے ہلکا سا زخم لگائیں اور پیچھے ہٹ جائیں، قریش مکہ یہ سب ایک ایسے انسان کے ساتھ کر رہے ہیں،جس کا قصور یہ تھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار تھا،اور اپنی جھوٹی اناؤں کو تسکین دینے کے لئے دھوکے سے قابوکیے گئے اس شخص کو وہ اپنے تئیں رسوا کر رہےتھے۔
شخص بھی کون۔۔۔۔ خبیب رضی اللہ عنہ، اور اسی دن کی صبح جب انہیں خبر دی گئی کہ ان کاوقت آن پہنچا ہے،تو حجیر جن کی قید میں انہیں رکھا گیا تھا،اس کی لونڈی سے ایک تیر دھار آلہ مانگا،کہ اللہ کے حضور کچھ پاک حالت میں پہنچا جائے،آلہ فراہم کر دیا گیا،مگر ساتھ ہی اہلِ خانہ کا ایک بچہ خبیب کے پاس جا پہنچا۔
اہلِ خانہ کی اوپر کی سانس اوپر،نیچے کی نیچے،خبیب، جن کو عرصہ دراز سے قید میں رکھا ہوا،مظالم کے پہاڑ توڑے ہوئے،اور جن کو معلوم تھا کہ قریش مکہ نے آج کے دن ان کےلئے کیا انتظام کر رکھا ہے، با آسانی اس بچے کو یرغمال بناتے یا قتل کر ڈالتے۔۔۔ کہ کچھ تو بدلہ لیا جاتا۔
اہلِ خانہ کے آتے جاتے رنگ دیکھ کر خبیب رضی اللہ عنہ مسکرائے، بچے کو واپس بھیجا اور فرمایا
“کیا تم سمجھتے ہو کہ میں ایک بچے کے قتل کے لئے اپنے آپ کو اتنا گرا لوں گا؟ یہ اقدام میرے بس کی بات نہیں۔”
اللہ اللہ۔۔۔۔ یہ تھا اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور یہ تھیں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، انسانیت کی اعلٰی معراج یونہی تو ممکن نہیں۔
ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے احد میں اپنی تلوار دے کر فرمایا کہ اس کا حق ادا کرنا، ابو بصیر۔۔۔ ایک زمانے کے مانے ہوئے تلوارباز، جدھر کا رُخ کرتے، صفوں کی صفیں الٹ دیتے،بالآخر ایک نقاب پوش پر نظر پڑی،اس کا انداز سب کو جنگ پر اُبھارنے والا،اس کا کفار مکہ پر دباؤ کہ وہ لڑائی میں حصہ لیں،ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے سوچا،اسے ختم کرنا ضروری ہے۔۔۔ یہ سب کو لڑائی پر ابھار رہا ہے، صفیں کاٹتے ہوئے اس تک پہنچے،تلوار بلند کی تو ایک چیخ بلند ہوئی،چیخ بھی نسوانی، نقاب الٹا تو پتا چلا،ہند بن عتبہ تھی،اس وقت کی بڑی دشمنوں میں سےایک، ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر عورت کا دھبہ برداشت نہ کیا اور تلوار نیچے کرلی،
عین میدانِ جنگ میں مردوں کی خصلتیں یہی ہوا کرتی ہیں۔
مجھے نہیں معلوم۔۔کہ ان انسان نما جانوروں کو کوئی دوسرا ملک پیسے دیتا ہے کہ نہیں۔ مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ یہ کس بدلے کی آگ میں یہ سب کر رہے ہیں۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کس کی ایماء پر انسانیت کے چہرے پر کالک مَل رہے ہیں،مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے ہاں میں مرتد ہوں کہ مسلم،میرا خون ان کے لئے حرام ہے کہ حلال،کہ یہ سب مباحث اب بے معنی ہیں۔
کیونکہ اس واقعے کے بعد یہ ضرور واضح ہو گیا کہ ان لوگوں کا میرے نبی صلی علیہ وسلم سے،ان کی آل سے،ان کے اصحاب رضی اللہ عنی سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں،
کہاں وہ انسانیت کی اعلٰی معراج،
کہاں گندگی کی دلدل میں ڈوبے یہ درندے۔
اور حق ۔۔۔۔ حق تو واضح ہوگیا۔
رورزِروشن کی طرح۔
جس کو دیکھنا ہے دیکھے، اور جو نہ دیکھ سکے ۔۔۔۔۔ وہ اندھیروں کے راہی کا ہمسفر۔۔۔۔ اندھیرے ہی اس کا مقدر
Discuss this topic on Defence.pk
Beautifully written! Really needed something like this to read and share. JazakAllah. May Allah show us all and keep us on the right path!!