اس کیس میں افضل گورو کے خلاف سب سے بڑی شہادت اس کا اپنا اعترافی بیان تها جس سے وہ سات ماہ بعد ہی منحرف ہوگیا تها۔ واضح رہے کہ اس اعترافی بیان کی قلم بندی کے وقت بھی افضل گورو کا کوئی قانونی مشیر موجود نہیں تها۔ اس کے متعلق افضل نے اپنے وکیل سشیل کمار کو بهی بتایا کہ وہ بیان اس کے اہلِ خانہ کو سنگین نتائج بهگتنے کی دهمکیوں کے بعد رکارڈ کروایا گیا۔
پچھلے برس آج ہی کے روز 9 فروری 2013 کی صبح طلوع ہونے والا سورج بھارتی لوک سبھا پر حملوں کے الزام میں قید کشمیری افضل گورو کی زندگی کے خاتمے کا پیغام لئے طلوع ہوا۔ دہلی کی تہاڑ جیل کے تختۂ دار پہ جہاں افضل گورو نے اپنی آخری چند سانسیں گنیں وہیں بهارت نے پهر اپنی سیاست چمکانے کے واسطے ایک بے گناہ سے جینے کا حق چهین لیا۔
اس پهانسی کی کڑیاں 13 دسمبر 2001 کو بهارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے سے جوڑنے کی کوشش کی گئی، جب پانچ مسلح حملہ آوروں نے بهارتی پارلیمنٹ پر دهاوا بولا تها جس کے نتیجے میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت ایک مالی اپنی جان سے ہاتھ دهو بیٹها تها اور پندرہ لوگ زخمی ہوئے تهے۔ اسی وقت سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں تمام نامعلوم حملہ آور بهی مارے گئے تهے۔ اس واقعے کے بعد بهارتی سرکار نے ہر واقعے کی طرح فورا اس حملے کا ملبہ بهی پاکستان پہ ڈالنے کی کوشش کی اور ملوث حملہ آوروں کو پاکستانی انٹیلی جینس ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہونے کا الزام عائد کر ڈالا، جس کے نتیجے میں پاک بهارت تعلقات پر نہایت برا اثر پڑا اور دونوں ممالک نے اپنی سرحدوں پر تقریبا آٹھ ماہ تک اپنی فوجیں تعینات کئے رکھیں۔
اس واقعے کے صرف دو دن بعد 15 دسمبر 2001 کو افضل گورو کو دہلی پولیس نے جموں وکشمیر سے گرفتار کر کے اس کیس میں شامل کیا۔ سنہ1986ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے اپنے شاندار تعلیمی رکارڈ کی وجہ سے میڈیکل کالج میں باآسانی داخلہ حاصل کرنے والے افضل گورو کا حساس دل آغاز ہی سے اپنے معصوم لوگوں پر ہونے والے جبر ومظالم پر کڑهتا تها، اسی لئے انہوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے بجائے خود کو تحریکِ آزادئ کشمیر کی مسلح جدوجہد کیلئے وقف کردیا۔ متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں جهیلیں مگر حوصلے پست نہ ہوئے۔ اور پهر 13 دسمبر 2001 میں بهارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملوں میں ملزمان کی معاونت کا الزام ان کے سر ڈال دیا گیا۔ بلاواسطہ انہیں شریکِ جرم کے طور پر پیش کیا گیا اور ان کا تعلق پاکستانی خفیہ اداروں اور جہادی تنظیموں سے جوڑا گیا۔
حیران کن طور پر افضل گورو کی گرفتاری کے بعد سے مئی 2002 تک انہیں کوئی وکیل فراہم نہیں کیا گیا۔ 4 جون 2002 کو افضل گورو اور دیگر تین ملزمان پر چارج فریم کیا گیا اور 18 دسمبر 2002 کو خصوصی عدالت نے انہیں سزائے موت کا فیصلہ سنادیا۔ سنہ2003ء میں دہلی ہائی کورٹ نے بهی اس فیصلے کی تائید کردی۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کے نتیجے میں دو ملزمان ایس آر گیلانی اور افشاں گیلانی کو باعزت بری جبکہ تیسرے ملزم شوکت حسین کی سزا کو کم کر کے دس سال قید میں تبدیل کردیا گیا، لیکن افضل گورو کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی گئی اور سزا میں کوئی ردوبدل نہ ہوئی۔ مختلف موقعوں پر بهارتی صدر اور حکومت سے کی جانے والی رحم کی درخواستیں بھی رد کردی جاتی رہیں۔ اس کیس میں افضل گورو کے خلاف سب سے بڑی شہادت اس کا اپنا اعترافی بیان تها جس سے وہ سات ماہ بعد ہی منحرف ہوگیا تها۔ واضح رہے کہ اس اعترافی بیان کی قلم بندی کے وقت بھی افضل گورو کا کوئی قانونی مشیر موجود نہیں تها۔ اس کے متعلق افضل نے اپنے وکیل سشیل کمار کو بهی بتایا کہ وہ بیان اس کے اہلِ خانہ کو سنگین نتائج بهگتنے کی دهمکیوں کے بعد رکارڈ کروایا گیا۔ افضل کا انٹرویو کرنے والے صحافی نے بهی اس بات کا دعوی کیا کہ دورانِ انٹرویو افضل نے انہیں بتایا کہ اسے جسم کے نازک حصوں پر بجلی کے جهٹکوں، مارپیٹ سمیت دیگر ہتهکنڈوں کے ذریعے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تها اور یہ اعترافی بیان بهی اسی طرح لیا گیا۔ لیکن سنہ2005ء میں بهارتی سپریم کورٹ نے انصاف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کی اپیل کو خارج کردیا اور پهر سنہ2006ء میں اس سزا پر عمل تا حکمِ ثانی معطل کردیا۔ 23 جنوری 2013 کو بهارتی صدر پرنب مکهرجی نے ان کی رحم کی اپیل خارج کردی اور موت کے بلیک وارنٹ جاری کر کے انصاف کا قتلِ عام کرڈالا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گورو کو موت کی سزا سنانے والے حکم نامے میں صاف صاف اس بات کا اظہار کردیا تها کہ اس کے خلاف پارلیمنٹ حملے میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد انہیں نہیں ملے تاہم بهارت کی عوام کے اجتماعی احساسات کی تسکین کیلئے بےگناہ ہونے کے باوجود گورو کو تختۂ دار پہ چڑهانا نہایت ضروری ہے، اور یوں کسی بهی قانونی اور اخلاقی ضابطے کی پرواہ کیے بغیر 9 فروری 2013 کو افضل گورو کو سانس لینے کے بنیادی حق سے محروم کردیا گیا۔ انسانی حقوق کی پامالی کی عظیم مثال قائم کرتے ہوئے بهارت نے نہ ہی افضل گورو کو اس کے اہلِ خانہ سے آخری ملاقات کا موقع فراہم کیا اور نہ ہی ان کے گهر والوں کو ان کی آخری جهلک دیکهنا نصیب ہوئی۔ ورثاء کے لاکھ مطالبوں کے باوجود بهی افضل گورو کا جسدِ خاکی ان کے حوالے نہ کیا گیا اور خاموشی سے پهانسی کے بعد تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا گیا، جس طرح اس سے قبل 11 فروری 1984 میں مقبول بٹ کو پهانسی کے بعد دفنایا گیا تها۔ مقبول بٹ بهی بهارتی عدالتی انتقام کی بهینٹ چڑهنے والوں میں سے تها۔
افضل گورو کے معاملے میں کئی رخ ایسے ہیں جن پر آنکهیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ افضل گورو کو اس کیس میں اپنے دفاع کیلئے کماحقہ وکیل آخر کیوں فراہم نہ کیا گیا؟ کیس کے آغاز میں ہی اگر قانونی مشیر میسر آ جاتا تو صورتحال قدرے مختلف ہوسکتی تهی۔ دوسری بات یہ کہ افضل گورو کے خلاف مقدمہ واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر چلایا جاتا رہا اور اسی پر فیصلہ سنادیا گیا، حالانکہ افضل کا براہِ راست حملوں میں ملوث ہونا یا معاونت فراہم کرنا کہیں بهی ثابت نہ ہو پایا تها۔ فیصلے میں باقاعدہ لکها گیا کہ یہ سزا مکمل قانونی شہادتوں کی غیر موجودگی میں صادر کی گئی ہے بلکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے سنائی گئی۔ کیا ایک بےگناہ کا لہو اتنا غیر اہم ہے کہ عوامی جذبات کی تسکین کیلئے اسے بہا دیا جائے؟ کیا افضل گورو بھارتیوں کے لئے مسیحا بن کے آیا تھا کہ اسے قوم کے گناہ دھونے کے لئے یوں تختۂ دار پر چڑها دیا جائے؟
افضل گورو کو آخر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع کیوں فراہم نہیں کیا گیا؟ اس سوال کے بہرکیف بهارت کی عدلیہ، سرکار اور عوام سب جوابدہ ہیں۔ گرفتاری کے بعد چھ ماہ تک اسے کوئی وکیل فراہم نہ کیا جانا اور پهر تشدد کے ذریعے اعترافی بیان وکیل کی غیر موجودگی میں قلم بند کرنا بهی بهارت کی اعلی عدلیہ کے طریقۂ عدل پہ سوالیہ نشان کهڑے کرنے کو کافی ہیں۔ مزید برآں افضل گورو کیس میں جس عجلت کا مظاہرہ بهارت نے کیا اس کی مثال ڈهونڈنا ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ حملہ کیس میں جون 2002 میں فردِ جرم عائد کیے جانے کے صرف 197 دنوں بعد اسے فیصلے کی صورت موت کا پروانہ تهما دیا گیا۔ اس کیس کی تحقیقات پہ مامور دہلی کے سپیشل پولیس سیل نے 17 دنوں میں تحقیقات مکمل کر کے بهی حیران کن پهرتی کا مظاہرہ کیا۔
یاد رہے کہ بهارت میں موت کی سزا پہ عملدرآمد شاذ ونادر ہی ہوتا ہے اور سنہ2004ء سے یہ بھارت میں دوسری پهانسی تهی۔ اس سے قبل گزشتہ برس ممبئی حملوں کے الزام میں محمد اجمل قصاب کو پهانسی دی گئی تهی۔ خود اجمل قصاب کا بهی بهارت میں پهانسی کی سزا پانے والوں میں 309واں نمبر تها اور دسمبر 2012 تک بهارت میں 477 لوگ ایسے تهے جن کو پهانسی کی سزا سنائی جا چکی تهی لیکن عمل درآمد باقی تها۔ تو پهر بهارت نے صرف اجمل قصاب اور افضل گورو کو سزا دینے میں ہی اتنی جلد بازی آخر کیوں دکهائی؟ اس پرمزید یہ کہ پهانسی سے قبل وکلاء اور افضل کے گهر والوں کو اس سے لاعلم کیوں رکها گیا؟ سرکار کی جانب سے فراہم کردہ وکیل نے کبھی اپنے موکل کو کیوں سنجیدگی سے نہ لیا؟ اور بیرونِ عدالت بهی سیاسی جماعتوں اور اہم شخصیات کی طرف سے اس قدر دباؤ کیوں ڈالا جاتا رہا کہ عدالتی کارروائیاں عملاً یرغمال ہو کے رہ گئیں؟
سپریم ﮐﻮﺭﭦ ﮐﯽ ﺳﺮﮐﺮﺩﮦ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﺎﻣﻨﯽ ﺟﯿﺴﻮﺍﻝ نے اس بارے میں کہا کہ :
ﺍﻓﻀﻞ ﮔﻮﺭﻭ ﮐﯽ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺍﭘﯿﻞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﻋﺮﺿﯽ ﭘﺮ ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﻋﺖ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﺩﯾﻨﺎ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺑﯽ ﺟﮯ ﭘﯽ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﯿﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔”
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ افضل گورو کو پهانسی دیتے ہوئے بھارت نے قانونی، اخلاقی اور انسانی حقوق کے تقاضوں کا کهلے عام گلا گهونٹ دیا۔ کیا یہی ہے جمہوری ریاست ہونے کی دعویدار بهارت کے نظامِ انصاف کا اصل چہرہ؟