مجھے نہیں معلوم کہ اگردریائے سندھ کے کنارے کوئی بکری پیاسی مر جائے تو اس کے لیے یہ حکمران جواب دہ ہیں یا نہیں، مگر وہعوام جن کے ووٹوں کی بدولت یہ حکمران ہیں اور جن کی نگرانی کے ذمہ دار ہیں ان کے لیے یہ ضرور جواب دہ ہی
رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
“تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔”
شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عمال کو تقرری کے وقت جو ہدایات دیا کرتے تھے اُس میں ان سے عہد لیا جاتا تھا کہ وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوں گے، چھنا ہوا آٹا نہ کھائیں گے، باریک کپڑا نہ پہنیں گے اور دروازے پر دربان نہ رکھیں گے تاکہ اہلِ حاجت کے لیے ان کا دروازہ کُھلا رہے۔
ایک دن مسلمانوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے تم پر عمال اس لیے مقرر نہیں کیے ہیں کہ وہ تمہاری کھالیں ادھیڑیں، تمہیں رسوا کریں اور تمہارا مال چھینیں، بلکہ انہیں اس لیے عامل بنایا ہے کہ وہ تمہیں کتاب وسنت کی تعلیم دیں۔ پس اگر کسی پر اس کا عامل ظلم کرے گا اور اس کی شکایت مجھ تک پہنچے گی تو بدلہ لیے بغیر نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
یہ وہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی، مگر خشیتِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ فرمایا کرتے تھے کہ فرات کے کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی پیاسا مر گیا تو اس کے لیے عمر جواب دہ ہے۔
روایت کیا جاتا ہے کہ جب مدینہ میں قحط پڑا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھی کھانا ترک کر دیا اور مصر، فلسطین اور عراق کی طرف وفود روانہ کیے تاکہ خوراک کی قلت پر قابو پایا جا سکے۔
آج کل آنے والی خبروں میں تھر پارکر میں قحط سالی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور نقل مکانی کی خبریں بھی شامل ہیں۔ مختلف تجزیوں کے مطابق پچھلے چند ماہ سے خشک سالی کی وجہ سے قحط کی صورتحال پیدا ہو گئی جس کے نتیجے میں سینکڑوں بچے بھوک اور بیماری کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں نقل مکانی کر چکے ہیں۔
دوسری طرف سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ تھر میں قحط کی کوئی صورتحال نہیں، اور جو بچے ہسپتال میں داخل ہوئے وہ غذائی قلت کا شکار نہیں تھے۔ مگر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے بعد سندھ حکومت نے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا، وفاقی حکومت کی طرف سے امدادی پیکج کا اعلان کیا گیا، پاک فوج کی طرف سے امدادی دستے روانہ کیے گئے اور ایک دن کا راشن عطیہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔
افسوس کی بات وہ سیاست ہے جو لوگوں کی جان کی قیمت پر کی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر ملک کی دو بڑی حکمران پارٹیاں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھراتی رہیں۔ ایک طرف کہا گیا کہ تھر میں لوگ بھوک سے مر رہے تھے جبکہ بلاول صاحب اور سندھ حکومت “سندھ فیسٹیول” میں مصروف تھی، جبکہ دوسری طرف سے جواب دیا گیا کہ جب لوگ بھوک کی وجہ سے اپنی اولاد کا سودا کر رہے تھے تو پنجاب حکومت “یوتھ فیسٹیول” میں مصروف تھی۔
مگر ان سب سے زیادہ افسوس کی بات وہ اخباری خبر ہے جس نے مجھے گنگ کر کے رکھ دیا ہے، خبر ہے:
“تھر کے متاثرین کی دادرسی کے لیے وزیرِ اعلیٰ سندھ کی آمد۔ تھر کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں، وزیرِ اعلیٰ کا وفد بوفے اڑاتا رہا، وزیرِ اعلیٰ اور ان کے وفد کو کھانے میں فرائی مچھلی اور تکے پیش کیے گئے، کھانے میں فنگر فش، ملائی بوٹی اور بریانی بھی شامل۔”
مجھے نہیں معلوم کہ اگردریائے سندھ کے کنارے کوئی بکری پیاسی مر جائے تو اس کے لیے یہ حکمران جواب دہ ہیں یا نہیں، مگر وہ عوام جن کے ووٹوں کی بدولت یہ حکمران ہیں اور جن کی نگرانی کے ذمہ دار ہیں ان کے لیے یہ ضرور جواب دہ ہیں۔ اور شاید اس وقت وہ الزام تراشی کام نہ آئے جو آج سندھ کے دو خاندانوں کے درمیان جاری ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تھر کے عوام کی دادرسی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے، بھوک سے بلکتی عوام کی بے بسی پر سیاست نہ کی جائے، اور حکمران اور عوام دونوں طبقات اپنی ذمہ داریاں پہچاننے کی کوشش کریں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔”