جہاد کو اسلام کا چھٹا رکن قرار دیا جا رہا ہے، یہ بات آپ کے لئے باعثِ تشویش ہے تو یقیناً مغرب کی طرف سے جاری جنگیں اور مسلمانوں کا قتلِ عام بھی آپ کے لئے باعثِ تشویش ہو گا اور اس تشویش کا اظہار آپ نے ملالہ سے بھی کیا ہو گا!
میں ایک پاکستانی ہوں جسے پچھلے سال ملنے والی ایک خبر نے اداس کر دیا تھا کہ طالبان نے گل مکئی کے نام سے بی بی سی کے لئے ڈائری لکھنے والی بچی پر قاتلانہ حملہ کر دیا ہے۔ سبھی عام پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی ملالہ کی صحتیابی کی دعا کی، اور ملالہ کے ہوش میں آتے ہی اکثریت نے شکر اد کیا، اس کے بعد ملالہ کی پذیرائی نے میرے ذہن میں کچھ شکوک پیدا کئے مگر ان کو یہ کہہ کر جھڑک دیا گیا کہ: “تم ایک نفسیاتی مریض ہو جس نے اپنے ہیرو صرف جنگجؤوں میں ڈھونڈنے شروع کئے ہوئے ہیں۔ اس بچی نے تعلیم کے لئے وہ کیا ہے جو کوئی نہیں کر سکتا۔ آئے بڑے شک کرنے والے بیوقوف! سازشی نہ ہوں تو جنہیں ہر بات میں سازش نظر آتی ہے!”
میرا دل ڈانواڈول ہوا۔ کچھ حامی تھے اور کچھ مخالف، اور مجھے رہنمائی درکار تھی اور میرے ذہن میں یہ آیت آئی:
“أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّـهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا” (سورة النساء: 63)
“ان کے دلوں کی بات خدا جانتا ہے۔ تم ان سے چشم پوشی کرو اور انہیں سمجھاؤ اور ان کے معاملے میں ان سے رسا بات کہو۔”
اس بات نے مجھے الجھن میں مبتلا کر دیا تھا، ملالہ کو ملنے والے انعامات اور ایوارڈ کچھ لوگوں کے لئے باعثِ فخر تھے اور کچھ کے لئے باعثِ تشویش۔ اسی اثناء میں ملالہ کی کتاب کا غلغلہ اٹھا۔ یقیناً اس کتاب میں تمام اعتراضات کا جواب ہو گا، مگر کتاب کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ملالہ کے حامیوں اور مخالفوں میں مزید گرما گرمی پیدا ہو گئی۔
کتاب میں اکثر جگہوں پر لکھا ہے: “میرے والد نے مجھے بتایا کہ ۔۔۔” جو باتیں بچپن میں بچوں کو سکھا دی جائیں وہ ساری عمر یاد رہتی ہیں۔ یقیناً ضیاء الدین یوسف زئی صاحب نے دو لفظ ضرور سکھائے ہوں گے اپنی بیٹی کو، بلکہ نہ صرف سکھائے ہوں گے بلکہ ساری عمر ان پر کاربند رہنے کا بھی کہا ہو گا اور وہ لفظ ہیں “انصاف” اور “غیر جانبداری”۔
مثلاً کتاب میں ملالہ کا اپنے والد کے حوالے سے کہنا ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب ان کو بھی اشتعال انگیز لگی، مگر وہ اظہارِ رائے کی آزادی کے قائل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا اسلام اتنا کمزور نہیں کہ ایک کتاب نہ برداشت کر سکے۔ مجھے یقین ہے کہ ضیاء الدین یوسف زئی صاحب! آپ نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ضرور بتایا ہو گا کہ توہینِ رسالت کا قانون امریکہ میں بھی موجود ہے جہاں ایک ایتھیسٹ کو اس بات پر عدالت نے سزا سنائی کہ اس نے خدا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں نازیبا الفاظ پر مشتمل پوسٹر ایک دیوار پر چپکایا تھا۔ اور امریکہ کی عدالت یا عوام میں سے کسی نے اظہارِ رائے کی آزادی کا نعرۂ مستانہ بلند نہیں کیا، نہ ہی یہ کہا کہ ان کا دین اتنا کمزور نہیں کہ ایک پوسٹر برداشت نہ کر سکے!
میری رائے میں توہینِ رسالت پر رائے زنی ہر ایرے غیرے کو نہیں کرنی چاہیے، مگر اظہارِ رائے کی آزادی کے تناظر میں ضیاء صاحب نے اس شجر ممنوعہ کا اپنی بیٹی کو ضرور بتایا ہو گا جس کا نام “ہولوکاسٹ” ہے اور جس کے بارے میں کسی بھی ہرزہ سرائی کرنے والے کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے، اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہمارا ہولو کاسٹ اتنا کمزور نہیں جو کسی کی تنقید برداشت نہ کر سکے!
ضیاء صاحب کے حوالے سے ایک اور بات لکھی گئی ہے کہ پاکستان کی پچاسویں سالگرہ پر آپ نے اپنے دوستوں کے ساتھ بازو پر سیاہ پٹی باندھ کر احتجاج کیا کہ جشن کی کوئی بات نہیں، اور آپ کا خیال ہے کہ سوات کو پاکستان کی خاطر قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے، اور یہ کہ ہمیں غلط بتایا جاتا ہے کہ ہم نے تین جنگیں جیتی ہیں۔ شاید آپ نے ملالہ کو یہ بھی بتایا ہو گا کہ امریکہ اور یورپی ممالک کا نصاب بھی غلط ہے جو اپنے بچوں کو یہ نہیں بتاتے کہ تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی کس نے کب اور کہاں کی، اور کس نے ایک قوم کو غلام بنایا اور دوسری کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا تاکہ ریڈ انڈینز کی زمین پر قبضہ کیا جا سکے!
آپ نے یہ بھی اپنی بیٹی کو بتایا کہ جنرل ضیاء الحق نے خواتین پر پابندی لگائی کہ وہ ہاکی کھیلنے کے لیے ڈھیلے پائجامے پہنیں گی نیکر نہیں، جو کہ آزادی کے راہ میں رکاوٹ تھی۔ یقیناً آپ نے نکولس سرکوزی کی حجاب پر پابندی کے بارے میں بھی بتایا ہو گا جو کہ مذہبی آزادی کے راستے میں رکاوٹ تھی، اور مغرب کی انتہا پسندی کے بارے میں بھی بتایا ہو گا کہ جہاں مروہ الشربینی کو محض حجاب پہننے کی وجہ سے بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے!
جنرل ضیاء الحق کے دور میں فروغ پانے والے عرب کلچر پر آپ کو تشویش تھی، اب یہاں کہیں اور کا تمدن فروغ پا رہا ہے یقیناً اس پر آپ کا دل باغ باغ ہو گیا ہو گا!
جہاد کو اسلام کا چھٹا رکن قرار دیا جا رہا ہے، یہ بات آپ کے لئے باعثِ تشویش ہے تو یقیناً مغرب کی طرف سے جاری جنگیں اور مسلمانوں کا قتلِ عام بھی آپ کے لئے باعثِ تشویش ہو گا اور اس تشویش کا اظہار آپ نے ملالہ سے بھی کیا ہو گا!
یقیناً یہ سب باتیں اور اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں آپ نے ملالہ کو ضرور بتائی ہوں گی، اور اگر اس کتاب میں ان کا ذکر نہیں ہے تو یقیناً اس کتاب کا اگلا ایڈیشن “ترمیم اور اضافہ شدہ” ہو گا جس میں ان سب باتوں کا ذکر ہو گا!
میرے اس پُر یقین دعوے پر قریب سے ہی کوئی آواز آئی ہے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتی ہوئی۔ اتنا ہنسنے والی کیا بات ہے اس میں بھلا؟!
Excellent but this should have been in English. Malala is our nation’s daughter, but like all Pakistanis we feel the book is not in her words. The writer (of the book) has expressed her own inner prejudices about Pakistan and its society. They are her words not Malala’s.
Its not a book written by a 16 year old.
Apparently PKKH has now digressed down to a mostly Urdu publication….this is not where the future lies…