اگر ہم انتہا پسند ہوتے تو راج کٹاس کا مندر گرا چکے ہوتے، اس ملک میں بھی ہندو کش فسادات برپا ہو رہے ہوتے اور پشاور والے سانحے کے بعد سارا ملک خاموش اور سوگوار نہ ہوتا۔ جو ایسا کہتے ہیں انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
میں ایک پاکستانی ہوں۔ پچھلے کچھ عرصے سے آنے والی خبروں نے مجھے پریشان کر رکھا ہے، وہ زیارت ریزیڈنسی پر ہونے والا حملہ ہو یا لائن آف کنٹرول پر ہونے والی شہادتیں، شاہزیب کے قاتلوں کو ہونے والی معافی ہو یا لاہور میں ہونے والا واقعہ، اپر دیر میں ہونے والا سانحہ ہو یا پشاور چرچ میں ہونے والا دھماکہ، ہر خبر نے مجھے کسی مہیب اندھیرے میں دھکیل دیا ہے، کافی عرصہ پہلے کا پڑھا ہوا حبیب جالب کا شعر یاد آ رہا ہے:
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند یہاں نہ نکلا کر
جالب صاحب نے تو یہ شعر کسی اور پْر آشوب دور کے لیے لکھا تھا، مگر یہ آج کے حالات کے بھی عین مطابق ہے۔ کچھ دن پہلے امریکہ میں نیول بیس پر ہونے والے حملے کے بعد امریکی پرچم سرنگوں رہا، مگر جنرل ثناء اللہ نیازی کے جنازے پر کسی سیاسی لیڈر کو جانے کی توفیق نہیں ہوئی، اور وزیرِ اعظم صاحب اگلے ہی روز ترکی کے دورے پر روانہ ہو گئے۔شاید اتنی بڑی بات نہیں ہوئی، مگر میجر جنرل ثناء اللہ کی لحد پر چھائی خاموشی اور ماحول پر چھائی سوگواریت مجھے غم کی اندھی کھائی میں دھکیل رہی ہے اور میرا جی چاہ رہا ہے پھوٹ پھوٹ کر اتنا روؤں کہ سب زمانے کو خبر ہو جائے۔ لاکھ انکار کی کوشش کے باوجود یہ تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ:
“یہ دیس واقعی اندھے لوگوں کا ہے جہاں بے حسی اور ناکامی ہے۔”
“کیا واقعی؟” آواز مانوس سی تھی۔
“ہاں! ہمارے پاس کچھ بھی قابلِ فخر نہیں۔ ہم نے سوائے دہشت گردی اور کرپشن کے دنیا کو دیا ہی کیا ہے؟ مجھے ہر وقت ‘ذرا سوچیے’ پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس ہے ہی کیا؟” میری مایوسی کی کوئی حد نہیں تھی۔
“ارے ہے کیوں نہیں، ہمارے پاس قائدِ اعظم ہیں جن پر صرف پاکستان کو ہی نہیں ساری دنیا کو اعتبار ہے کہ وہ کرپٹ نہیں تھے، اور جب زیارت ریزیڈنسی پر حملہ ہوا تو وہ بلوچ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شاید محبِ وطن نہیں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔”
“ہاں مگر ہم کب تک یہ سوچ کر خوش ہوتے رہیں گے کہ قائدِ اعظم بڑے صاف گو اور کھرے تھے۔ دنیا تو ہمیں انتہا پسند اور دہشت گرد ہی کہتی ہے نا۔”
“غلط!” قطعیت سے جواب آیا۔ “اگر ہم انتہا پسند ہوتے تو راج کٹاس کا مندر گرا چکے ہوتے، اس ملک میں بھی ہندو کش فسادات برپا ہو رہے ہوتے اور پشاور والے سانحے کے بعد سارا ملک خاموش اور سوگوار نہ ہوتا۔ جو ایسا کہتے ہیں انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ہمارا ملک تو دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک ہے، اور اقوامِ متحدہ کے امن مشن میں حصہ لینے والا دوسرا بڑا ملک ہے، ہم کیسے انتہا پسند اور دہشت گرد ہو سکتے ہیں؟”
میرے دل کو کچھ تسلی ہوئی۔
“مگر وہ مجھے کہتے ہیں کہ ‘ذرا سوچیے!’ تعلیم میں ہم نے کیا ترقی کی؟ تحقیق میں ہم کہاں ہیں؟”
“نتھیا گلی انٹر نیشنل سمر کالج میں ہر سال پوری دنیا سے لوگ ریاضی اور فزکس میں ریسرچ کرنے کے لیے پاکستان آتے ہیں!”
“کیا واقعی؟!”
“جی ہاں، ڈاکٹر عبدالسلام اور ارفع کریم کو دنیا ابھی بھولی تو نہیں، اور ڈاکٹر ایوب امیہ کے نام سے تو آپ واقف ہی ہوں گے؟”
“نہیں تو! یہ کون ہیں؟” اور پھر کچھ خیال آنے پر میرا خون ابلنے لگا۔ “ہوں گے کوئی پاکستانی ڈاکٹر جو کسی خوشحال ملک میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہوں گے!”
“ارے نہیں بھئی، پاکستان کے بہت مشہور نیوروسرجن تھے جنہوں نے امیہ پروسیجر ایجاد کیا تھا۔”
یہ سب سن کر میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی مگر کچھ سوچ کر پھر سے مدھم پڑ گئی۔
“مگر وہ کہتے ہیں تمہاری افواج ناکام ہیں۔”
“جلتے ہیں!” اب کے اس آواز میں فخر تھا۔ “ہماری فوج کی تعریف تو دشمن کرتا ہے!”
“کب؟ کب؟ بھلا کب؟!” میں نے اشتیاق اور حیرانی کے ملے جلے جذبات سے پوچھا۔
“۱۶دسمبر سنہ۱۹۷۱ء میں جب لانس نائک محمد محفوظ شہید کا جسم دشمن کے بنکر سے ملا، تو دشمن کے لیفٹننٹ کرنل نے کہا: “اتنا بہادراور دلیر جوان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا! اگر یہ میری فوج میں ہوتا تو میں اسے سب سے بڑا فوجی اعزاز دلواتا۔” اور ایم ایم عالم کے کارنامے بھی دنیا فراموش نہیں کر سکی!”
میرا دل تیز تیز دھڑک رہا ہے، یہ سب ان قندیلوں کی طرح لگ رہا ہے جو مہیب رات کو منور کر دیتی ہیں۔ بہت سے قدموں کے نشان مل گئے تھے جو منزل تک جاتے ہیں، جنہیں دیکھ کے مجھ ایسے کم ہمت لوگ بھی کوئی حوصلہ پائیں اور سر اٹھا کے کہہ سکیں کہ “یہ دیس اندھے لوگوں کا نہیں ہے جناب!”
bahut khoob ap ney theek kaha patta nahi kiya baney ga hamara ham bilkul behis hochukkey ALLAH kareem reham farmay ameen