بھارت ہمیشہ پاکستان پر دہشت گردی اور مداخلت کا الزام لگاتا آیا ہے لیکن اس سلسلے میں آج تک کوئی ثبوت نہیں دے پایا ہے، جبکہ بھارتی فوج کے سابقہ سپہ سالار کا یہ اعتراف ‘امن کی آشا‘ کی کوششوں پر کاری ضرب ہے۔
امریکہ کے شہر نیویارک میں اس وقت اقوامِ متحدہ کا 68واں سیشن جاری ہے۔ یوں تو اقوامِ متحدہ کا کردار مسائل کے حل کے حوالے سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے، لیکن دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا بہت سے مسائل کے حل کی بنیاد ضرور بن جاتا ہے۔ اس سیشن کے شروع ہونے سے کئی مہینے پہلے سے ہی دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کے سربراہانِ مملکت کی ملاقات کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ہمیشہ سے ایک خواب رہے ہیں جو باوجود تمام کوششوں کے ابھی تک خراب ہی ہیں۔ گذشتہ روز بھارت کے وزیرِ اعظم نے امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ملاقات میں الزام لگایا کہ ’’دہشتگردانہ کارروائیوں کامرکز اب بھی پاکستان ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’نواز شریف سے ملنے کا منتظر ہوں مگر توقعات ذرا کم رکھی جائیں۔‘‘
اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران پاکستان اور بھارت کے سربراہانِ مملکت کی ملاقات ہفتوں پہلے سے زیرِ غور تھی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکٹری جنرل بان کی مون نے اس مجوزہ ملاقات کو خوش آمدید کہا تھا اور اسے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے لئے خوش آئند قرار دیا تھا، جبکہ دونوں ممالک کے سربراہوں نے بھی ملاقات کی یقین دہانی کروائی تھی اور خوشی کا اظہار بھی کیا تھا۔ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہے ہیں جب بھارت کے سابقہ آرمی چیف کا یہ اعتراف سامنے آیا ہے کہ ٹیکنیکل سروسز ڈیویژن کے نام سے ایک علیحدہ یونٹ تشکیل دیا گیا تھا جس نے پاکستان کے اندر کاروائیاں کی ہیں۔ بھارت ہمیشہ پاکستان پر دہشت گردی اور مداخلت کا الزام لگاتا آیا ہے لیکن اس سلسلے میں آج تک کوئی ثبوت نہیں دے پایا ہے، جبکہ بھارتی فوج کے سابقہ سپہ سالار کا یہ اعتراف ‘امن کی آشا’ کی کوششوں پر کاری ضرب ہے۔ پاکستانی حکومت کو چایئے کہ یہ معاملہ سنجیدگی سے بھارتی حکومت کے ساتھ اٹھا کر وضاحت طلب کرے اور ساتھ ہی ساتھ اقوامِ متحدہ میں بھی یہ معاملہ اٹھائے کہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف ریاستی پشت پناہی میں جاری بھارتی خفیہ سرگرمیوں کا عالمی برادری نوٹس لے۔
مذاکرات کی میز سجنے سے 48 گھنٹے قبل 26 ستمبر کی صبح جموں وکشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں ‘شہداء بریگیڈ’ نامی تنظیم کے 3 کشمیری نوجوانوں نے ہیرہ نگر پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا اور اس کے بعد سامبا میں واقع بھارتی فوج کے ایک کیمپ میں گھس کر لیفٹیننٹ کرنل بکرم جیت سنگھ سمیت 13 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعے کی گونج اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں سنی گئی اور کشمیر کا مسئلہ جو کہ گذشتہ 65 سالوں سے توجہ کا طالب ہے ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا۔ اس حملے کے نتیجے میں بھارت میں اپوزیشن کی طرف سے ہنگامہ برپا کیا گیا اور پاک بھارت مذاکرات کا جو دور اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران ہونا تھا اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی گئی۔ توقعات کے برعکس پاکستان نے اس واقعے کی شدید مذمت کی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان گذشتہ 65 سال سے کشمیر کے مسئلہ پر تنازع جاری ہے، اس مسئلہ کے حل کے لئے بارہا بات چیت کے کئی ادوار ہوئے ہیں، بیک چینل سے لیکر ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور بس سروس سے لیکر کرکٹ ڈپلومیسی تک ہر آپشن کو استعمال کیا گیا ہے، لیکن بھارت کی مسلسل ہٹ دھرمی کے سبب یہ مسئلہ ہنوز سردخانے میں ہی ہے۔ کشمیر کی متنازع حیثت ساری دنیا تسلیم کرتی ہے اور کشمیریوں کی جانب سے کی جانے والی جدوجہد کی اخلاقی مدد کی قائل بھی ہے۔ ایک متنازع علاقے میں ہونے والے حریت پسندوں کے حملے کو بنیاد بنا کر بھارت کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کو ٹھکرا دینا انتہائی بے وقوفی ہے۔ بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ کانگریس کی گرتی ہوئی ساکھ کی بحالی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے کے لئے حسب ِ روایت پاکستان دشمنی کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کشمیر سے اپنی غاصب افواج کو باہر نکال کر کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے جس کی تائید میں اقوامِ متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں، اور پاکستان سے برابری کی سطح پر مذاکرات کرے تاکہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسان ترقی اور فلاح وبہبود کی سمت سفر شروع کر سکیں۔
برابری کی سطح پر مذاکرات کیا ہوں گے جب کہ منموہن صاحب بضد ہیں کہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا جاءے۔