“اس پرانے پاکستان میں صالح بننے سے کیا چیز منع کرتی ہے آپ کو؟” اب کے اس آواز میں طنز تھا۔ “ایک طالب علم کی حیثیت سے ہی اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ دیکھ لو، جو شروع ہی کلاس میں بے ایمانیوں سے ہوتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ اگر ہم پر برے لوگ نہ ہوتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔”
میں ایک پاکستانی ہوں۔ سب پاکستانیوں کی طرح اس سال کا ماہِ مئی میرے نزدیک بھی بہت اہم تھا جبکہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہونے جا رہاتھا، اور الیکشن سے قبل انتخابی جماعتوں کے نعرے اور وعدے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی میلے میں سجی رنگ رنگ کی دکانیں اور جادو گری کے کرتب دکھاتے جادوگر!
کوئی ملک کو ایشین ٹائگر بنا کر دکھا رہا تھا تو کوئ روٹی، کپڑا اور مکان کی دکان سجائے بیٹھا تھا، اور کوئی نیا پاکستان بنا کر سب کو حیران کر رہا تھا۔ مجھے اپنا آپ اس بچے کا سا محسوس ہوا جو حیران کھڑا ہے کہ کس دکان پر جائے اور کس کے کرتب کی داد دے؟ ووٹ دینے کے لیے مجھے رہنمائی درکار تھی، مگر اپنے گرد موجود لوگوں سے نہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ تھا یا کسی کا مخالف، اور مجھے کہا جا رہا تھا کہ اس بار بار کی آمریت کے ستائے ہوئے بیچارے سے ملک کو اگر بچانا ہے اور اسے ترقی دینی ہے تو ووٹ ضرور ڈالنا ہو گا۔
ایک جگہ نظر آئی جہاں سے رہنمائی مل سکتی تھی، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ:
“یہ کتاب {قرآن} کچھ شک نہیں کہ اس میں رہنمائی ہے پرہیز گاروں کے لیے۔”
میں اگرچہ بہت پرہیزگار نہیں مگر رہنمائی مجھے بہرحال چاہیے تھی۔ یہی سوچ کر میں نے یہ دعا کرتے ہوئے قرآن اٹھایا کہ اے اللہ! اس ناکام ملک کو کامیاب بنانے کے لیے میں کیا کروں؟ کس کا انتخاب کروں؟ اور جو سورۃ میرے سامنے آئی وہ تھی سورۃ یوسف۔
سورۃ یوسف اور پاکستان کا کیا تعلق تھا بھلا؟ یہی سوچتے ہوئے الیکشن کا دن گزر گیا،نئی حکومت آ گئی جس کے آنے پر کچھ لوگ خوش ہوئے اور کچھ مایوس، اور دن گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی کارکردگی دیکھ کر اس وقت خوش ہونے والے لوگوں میں سے بھی بعض ناراض ہو گئے کہ کاش نیا پاکستان ہی بنا لیا ہوتا۔ لیکن میری الجھن دور نہیں ہوئی، حضرت یوسف علیہ السلام اور پاکستان کا کیا تعلق ہے بھلا؟ کیا مصر کی طرح یہاں بھی قحط پڑ جائے گا یا خوشحالی آ جائے گی؟ مگر اس میں میرے لیے کہاں رہنمائی ہے؟ اور پاکستان اور حضرت یوسف میں کیا مماثلت ہے؟ اس ملک کا تو کوئی حال نہیں رہ گیا بار بار فوج کے مارشل لاء اور ایجنسیوں کی سیاست میں مداخلت سے، اور اب بھی وہی ہوا۔ ہاں اگر نئے لوگ آتے تو امید تھی کہ اس ملک کے حالات سدھر جاتے۔
“مماثلت حضرت یوسف اور پاکستان میں نہیں، تم میں اور برادرانِ یوسف میں ہے۔” یہ آواز اچانک کہیں سے ابھری تھی اور مجھے شدید حیرت سے دوچار کر گئی تھی!
“وہ کیسے بھلا؟” میں نے پوچھا۔
“کیونکہ تم بھی برادرانِ یوسف کی طرح برائیاں کرنے کے بعد صالح بننا چاہتے ہو۔”
“مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔”
“جیسے حضرت یوسف کے بھائیوں نے منصوبہ بنایا تھا کہ یوسف کو مار ڈالو یا کہیں پھینک آؤ پھر صالحین میں سے ہو جانا، وہی حالات تمہارے بھی ہیں۔ اگر نئے لوگ آتے تو کیا ملک بدل جاتا؟ حالات بدل جاتے؟”
“ہاں کیوں نہیں۔ مجھے پورا یقین ہے، نیا پاکستان بنتا!”
“اس پرانے پاکستان میں صالح بننے سے کیا چیز منع کرتی ہے آپ کو؟” اب کے اس آواز میں طنز تھا۔ “ایک طالب علم کی حیثیت سے ہی اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ دیکھ لو، جو شروع ہی کلاس میں بے ایمانیوں سے ہوتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ اگر ہم پر برے لوگ نہ ہوتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔”
“طالب علموں کا یہاں کیا ذکر؟ اور ویسے بھی مجھ اکیلے سے فرق ہی کیا پڑتا ہے؟”
“درست، اس ملک میں سب یہی سوچتے ہیں کہ ان کے انفرادی عمل سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ٹیکس چور بھِی یہی سوچتے ہیں، بجلی چور بھی، رشوت خور بھی۔ اور پھر سب یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ نئے لوگ آتے تو سب بدل جاتا!”
میں نے دل میں شرمندگی محسوس کی مگر ہار نہ ماننے کا فیصلہ کیا۔ “اب حالات بدل گئے ہیں، میڈیا نے بہت آگاہی پھیلا دی ہے اور ایسی بہت سی بے حکومتی اور غیر حکومتی بے ضابطگیوں کو بے نقاب کیا ہے۔”
“کیا ہو گا؟” بے پروائی سے جواب آیا۔ “مگر جناب یہ وہی میڈیا نہیں ہے جو بات کو بڑھا چڑھا کر بتانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا؟ غیر ملکی ثقافت کا دلدادہ ہے اور بات بے بات اپنے ہی ملک اور افواج پر چڑھ دوڑتا ہے اور آزادی کے نام پہ نوجوان نسل کو کوئی اور ہی ڈگر پہ لے گیا ہے؟”
میرے ماتھے پہ پسینہ ابھر آیا تھا۔ “مگر نوجوان نسل سے تو بہت امیدیں ہیں جنہیں کل تک اس ملک کے حالات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، مگر اب تو دولت مند گھروں کے نوجوان بھی ملکی سیاست اور حالات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس الیکشن میں ساری دنیا نے دیکھا تھا۔”
اب کے اس آواز میں رکھائی تھی۔ “کہیں یہ وہی ‘دولت مند نوجوان’ تو نہیں جو کبھی مصنوعی بارش میں شوق فرماتے ہیں تو کبھی کلچرل نائٹ میں اپنی ‘ثقافت’ کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں؟ ویسے یہ ‘لا ٹماٹینا’ کیا ہوتا ہے؟ اور پھر کہا جاتا ہے کہ اگر نیا پاکستان بنتا، فوج بار بار سیاست میں دخل نہ دیتی تو یہاں سب بدل جاتا!”
اب کے میں نے ڈھیٹ بن کے کہا: “اس میں غلط کیا ہے؟ یہ ملک بھی برا ہے اور یہاں کی فوج بھی بری ہے جس نے ہمیں بدنام کیا، ہمارا تشخص مجروح کیا، اب ایسے ملک میں رہتے ہوئے یہ سب کر رہے ہیں نوجوان تو کیا غلط ہو گیا؟”
“ابھی بھی تمہیں اپنے اور برادرانِ یوسف کے مماثل ہونے میں شک ہے؟ انہوں نے بھی حضرت یوسف کو تکلیف پہنچائی اور الزام بھی انہی کو دیا!”
“کیسے؟”
“جب بنیامین کے سامان سے پیالہ نکلا تو برادرانِ یوسف نے کہا کہ اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ تم نے بھی اس ملک کی جڑیں کھودنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور برا ہونے کا الزام بھی اسی ملک پر ہے؟”
میں لاجواب ہوں، اور اب آپ سے کیا چھپانا۔۔۔ میں ایک دفعہ پھر شرمندہ ہوں۔۔۔
بہت خوب! بہت اچھی تحریر ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
ایسی فکرانگیز تحریریں لکھتی رہا کیجئے۔