پاکستان نے روزِ اوّل سے ہی ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اپنے معاملات افغانستان کے ساتھ نارمل رکھےتاکہ اس کی مغربی سرحد پُرامن رہے کیونکہ وہ خود کسی طور پر بھی اپنی دونوں سرحدوں(مشرقی اور مغربی) پر مستقل یا عارضی خطرہ مول لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ مگر بد قسمتی سے اس کی اس کمزوری پر بارہا وار کیا گیا۔ جس کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان نے افغانستان سے اپنے ملک میں دراندازی اور منشیات کی ترسیل کے مکمل تدارک کے لئے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا جس سے بھارت کو قوی زک پہنچی کیونکہ اس نے افغانستان میں اپنے اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی آڑ میں پاکستان کی سرحد سے متصل افغانستان میں درجنوں کونسل خانے قائم کئے، جہاں سے پاکستان کی سر زمین پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ترویج بخشنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ سازی کی جاتی ہے۔ جس کی مثال اے پی ایس اسکول حملے سمیت دیگر بہت سے حملے ہیں جنہیں سرحد پار سے کنٹرول کیا جا رہا تھا اور جس کے ثبوت بھی پاکستانی حکام کے پاس موجود ہیں۔
پاکستان نے اپنی سر زمین پر امن کی بحالی کے لئے بہت بھاری قیمت چکائی ہے گو کہ اس کی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کاوشوں کو عالمی سطح پر کبھی بھی سراہا نہیں گیا مگر اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان نے اپنے متعدد علاقوں بشمول کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں سے دشمن کی بچھائی ہوئی دہشت گردی کی بساط کو ایسے الٹا ہے کہ دشمن قوتیں بھی دنگ ہیں۔ اس لئے وہ یکے بعد دیگرے اپنے نت نئے مہرے پیش کر رہی ہیں جو ایک ایک کر کے بری طرح پاکستانی عوام اور اس کی افواج کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں۔ جس کی انہیں بہت تکلیف ہے اور یہی وجہ ہے کہ بار بار انہی پاکستان دشمن قوتوں کی جانب سے اینٹی آرمی کیمپین سامنے آئی۔ مگر یہ کیمپینز بھی از خود بے وقعت ہو رہی ہیں چونکہ جواباً پاکستانی عوام کی جانب سے اپنے محافظوں کے دفاع کے لئے سماجی میڈیا اور جلسے جلوسوں میں کھل کر لب کشائی سامنے آرہی ہے۔ اس طرح دشمن کا ہر ہتھکنڈہ قدرتًا خود کار طریقے سے زائل ہو رہاہے۔ مگر اسی اثناء میں اچانک سے دشمن قوتوں نے ڈیورنڈ لائن( پاک۔ افغان باڈر) کو بطور ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا جو کہ واقعی ایک نازک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
علاوہ ازیں، اس وقت پاکستان کی جانب سے لگائی جانے والی باڑ عالمی میڈیا کےمطابق بھارت، امریکہ اور افغانستان کے لئے یکساں طور پر درد سر بنتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے ایک متنازعہ ترین سابق سفیر حسین حقانی جو کہ امریکہ کے بہت قریب سجمھے جاتے ہیں کی جانب سے بھی ایک مضمون لکھا گیا جس میں انہوں نے اس باڑ کو برلن وال( جس نے جرمنز کو منقسم کیا) سے تشبہیہ دے کر یہ بتانے کے کوشش کی کہ یہ دونوں ( پاکستان اور افغانستان) طرف کے پشتون قوم کو منقسم کرنے کی سازش ہے۔ اس باڑ پر مذکورہ بالا ممالک کے علاوہ پاکستان کی قوم پرست جماعتوں کے بھی اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ ان اعتراضات کی وجوہات جو بھی ہوں مگر یہ بات بالکل عیاں ہے کہ جہاں اس باڑ سے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے عزم کو تقویت پہنچے گی وہیں یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہےکہ اس کی تکمیل کے بعد دشمن قوتوں کو اپنےمتعدد مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں یقیناً دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن میں سے چند ایک نکات درج ذیل ہیں۔
ا۔ یہ باڑ مکمل ہونے کے بعد پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو جائے گی اور افغانستان سے پاکستان دہشت گردوں کی نقل و حمل ممکنہ طور پر رک جائے گی۔ نیز آپریشن ردالفساد کے شکنجے سے بچ کر جو شرپسند پہلے افغانستان فرار ہوجاتے تھے اُن کا راستہ بھی بند ہوجائے گا۔ اس طرح پاکستان کو ان شرپسندوں اور انکے سہولت کاروں کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کا موقع ملے گا۔
ب۔ سی پیک اطمینان بخش حد تک محفوظ ہو جائے گا۔ اور افغانستان کے الزامات جو وہ آئے روز پاکستان پر لگاتا ہے کہ یہاں سے اس کی سرزمین پر دراندازی ہوتی ہے کا بھی تدارک ہو جائے گا۔
ج۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان دنیا کی 70 فیصد افیون پیدا کرتا ہے۔ جسے بعد ازاں امریکن سی آئی اے ہیروئن میں تبدیل کر کے سالانہ تقریباً 80 ارب ڈالر کماتی ہے، مقتدر حلقوں کی جانب سے یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ باڑ لگنے سے افیون کی یہ نقل و حمل بھی خاصی متاثر ہو گی۔
د۔ باڑ لگنے کے بعد افغانستان واپس بھیجے جانے والے افغان مہاجرین کی چور راستوں سے پاکستان واپسی بھی بند ہو جائے گی کہ جن پر شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں تخریب کارانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت انہیں اپنی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنا قیمتی اثاثہ تصور کرتا ہے۔
ایک بات جو نہایت توجہ طلب ہے کہ پشتون کارڈ جو اس بار پاکستان دشمن قوتوں کی جانب سے کھیلا گیا وہ بری طرح فلاپ ہوا ہے۔ جس کی غمازی گزشتہ ہفتے افغانستان کی جانب سے کئے جانے والے ایف سی کے اہلکاروں پر فائرنگ سے بخوبی ہوتا ہے جس کا مقصد حقیقتاً کچھ اور تھا۔ مگر اپر اور لوئر کرم ایجنسی کے غیور قبائل نے افغان فورسز کے مخالف ہتھیار اٹھا کر جہاں دشمن قوتوں کے جلتی پر تیل ڈالنے جیسے گھناؤنے مقاصد پر پانی پھیر دیا وہیں اپنا فیصلہ بھی سنا دیا کہ وہ پاکستان مخالف نعرے لگانے والوں کی صفوں میں ہرگزشامل نہیں ہونگے۔ حتیٰ کہ کرم ایجنسی کی نوری اور بنگش قبائل نے آپس کی دشمنی کو نظر انداز کرتے ہوئے متحد ہو کر حملہ آوروں کا مقابلہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں افغانستان میں گھسنے کی اجازت دی جائے۔ یہ ہوتی ہے وطن عزیز سے محبت اور وفاداری کہ جس کے پیش نظر پاکستان کے دشمنوں کے خلاف آپسی جھگڑے بھی پس پشت چلے جاتے ہیں اور سخت مخالفین بھی ایک ہو جاتے ہیں۔
ماضی میں بھی لسانی، صوبائی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر دشمن قوتوں کی جانب سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف بے شمارکارڈ کھیلے جاتے رہے ہیں اور شاید آگے بھی ایسا ہوتا رہے۔ اس کے پس پردہ حائل عوامل تو بہت سے ہیں مگر فی الحال ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ پانچویں نسل کی جنگ کا سب سے نازک ترین جزو ہے جو اس وقت ہمارے وطن عزیز کو درپیش ہے۔ کیونکہ اس میں ہدف(ٹارگٹ) ملک کے باشندوں کے متنوع مذہبی عقائد اور معاشرتی/ سماجی/ ثقافتی شناخت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ سب سے خطرناک اس لئے سمجھا جاتا ہے کیونکہ دشمن قوتیں اس میں( ہدف ملک کے) لوگوں کے جذبات اور احساسات کو اپنے گھناؤنے مقاصد کے حصول کے لئے بے دردی سے استحصال کرتی ہیں اور معصوم لوگ انہیں اپنا مسیحا سمجھ کر ان کے ہاتھوں میں کھیلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی نازک صورتحال سے ممکنہ بچاؤ کے لئے ہمیشہ ‘ ہارڈ پاور’ کے ساتھ ساتھ ‘سافٹ پاور’ کو بروئے کار لانے کی حکمت عملی تجویز کی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں موجودہ حکومت اپنے دور اقتدار کے آغاز سے ہی اپنے ذاتی نوعیت کے خاندانی بحرانوں میں گھری رہی کہ جس کی بدولت اسے ملک کی قومی سلامتی سے متعلقہ امور پر غور و خوص کا موقع ہی نہیں ملا۔
اس سے بھی بڑھ کر تشویشناک امر یہ ہے کہ پشتونستان کا نعرہ لگانے والی حالیہ نام نہاد تحریک پی ٹی ایم کی ایک عدد ایپ اور چند آن لائن پورٹل بھارت اور افغانستان سے چلنے کا انکشاف ہوا ہے جو کہ اس تحریک کے پس پردہ ملوث ہاتھوں کو بخوبی بے نقاب کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کیا حکومت پاکستان ملکی سلامتی سے متعلق اس نازک ترین مسئلے کے لئے کچھ وقت نکال پاتی ہے یا اس معاملے سے بھی نمٹنے کی ذمہ داری دیگر بے شمار معاملات کی طرح پاک فوج کے کندھوں پر ہی ڈال دی جاتی ہے۔