کبھی لسانی فسادات، کبھی مذہبی منافرت، کبھی لوگوں پر دہشت قائم کرنے کے لئے آئے دن شہر کا بند کروانا، کبھی ٹارگٹ کنلگ، کبھی ماورائے عدالت قتل اور کبھی بم دھماکے، یہ وہ عوامل ہیں جو کئی دہائیوں سے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھنے والے سب سے بڑے شہر کراچی کا تعارف بنے رہے۔ کیونکہ یہاں جرائم پیشہ افراد بھی سرگرم تھے اور گینگسٹرز بھی، سیاسی تنظیموں کے عسکری ونگ بھی اپنے تئیں قائد کے اس شہر میں بد امنی پھیلانے میں سرفہرست تھے اور ایسی موذوں صورتحال سے بھلا دہشت گرد، شر پسند اور خوارج کیسے مستفید نہ ہوتے؟ انہوں نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے بلکہ اگر کہا جائے کہ وہ پورے نہائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس کی تصدیق بھارتی نیوی کے حاضرسروس افسر راء ایجنٹ کلبھوشن یادو کے اعترافی بیان سے بخوبی ہوتی ہے۔
3مارچ 2016ء میں بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر اور بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے دہشت گرد جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادو کی بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتاری ایک (آئی بی او) انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ جس سے دنیا بھر میں ایک کھلبلی سے مچ گئی۔ کیونکہ بھارتی دہشت گرد نے بذات خود اپنے ملک کا گھناؤنا چہرہ دنیا بھر کے سامنے ایک اعترافی ویڈیو میں بے نقاب کیا۔ اس نے پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائید کی کہ بھارتی راء پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں براہ راست ملوث ہے۔ اس نے یہاں تک کہا کہ وہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے لئے تو عرصہ دراز سے بر سر پیکار ہیں ہی مگر کراچی کا سکون غارت کرنے میں بھی ملوث ہیں۔ وہ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر فسادات کروانے اور متعدد دہشت گرد گروپوں کی فنڈنگ اور سرپرستی کرنے میں بھی ملوث ہیں۔ حتیٰ کہ کلبھوشن یادو نے اپنے اعترافی بیان میں صفورا بس حملے اور سندھ پولیس کے ایس پی چوہدری اسلم کو مارنے کی بھی ذمہ داری قبول کی۔
ظلم و بربریت اور تشدد چاہے کسی بھی معاشرے میں جس مرضی بنیاد پر ہو، لسانی، مذہبی ، فرقہ ورانہ، سیاسی طاقت، یا پھر غیرت یا قومی سلامتی کے نام پر، اس کا تدارک معاشرے سے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ چاہے وہ معاشرہ خود سے کرے یا پھر ریاستی مشینری حرکت میں آئے۔ مگر خوف کے سائے میں کسی بھی معاشرے کو ہرگز جینے نہیں دیا جا سکتا۔ کسی نا کسی کو پوری قوم کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا کر ضرور پہل کرنا پڑتی ہے، تبھی کوئی معاشرہ قوم بنتا ہے ورنہ تو جنگل اور معاشرے میں کوئی فرق نہ رہے۔
کراچی میں امن کے قیام کے لئے پاکستان رینجرز کےعلاوہ پولیس فورس کی بہت قربانیاں ہیں جن میں ایک نام سندھ پولیس سے تعلق رکھنے والے ایس ایس پی چوہدری محمد اسلم کا بھی ہے ۔ جنہوں نے لیاری ٹاسک فورس کی قیادت کی اور لیاری سے گینگ وار کا خاتمہ کیا جس نے کراچی کے بہت سے ہونہار نوجوانوں کو نگل لیا۔ 2005ء سے 2014 ء کے درمیان چوہدری اسلم نے بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا جن کا تعلق بی ایل اے، ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ پاکستان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز سے تھا۔ جن خطرناک مجرموں کو چوہدری اسلم نے گرفتار کیا ان میں عبدالرحمن ڈکیت، صولت مرزا، شعیب خان اور متعدد ٹی ٹی پی کمانڈرز اور بہت سے دوسرے دہشت گرد شامل ہیں۔ 2010ء میں چوہدری اسلم کو تحقیقاتی ونگ کے سربراہ کے طورپر سی آئی ڈی میں تعینات کیا گیا۔ 2012ء میں ‘لیاری گرینڈ آپریشن’ میں اپنی کارکردگی کی وجہ سے چوہدری اسلم نے عوام اور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں خوب نام بنایا۔اوروہ2011ء میں ٹی ٹی پی کے ایک حملے میں بال بال بچے جس میں انہیں انہی کے گھر( ڈیفینس فیز-8 کراچی) میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ مگر یہ حملہ بھی ان کے عزم کو نہ توڑ سکا اور وہ دہشت گردوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹے رہے۔
مگر وہ پھر بھی دہشت گردوں کے نشانے سے ہٹے نہیں بلکہ وہ مسلسل ان کے ہدف پر رہے۔ 9 جنوری 2014ء کوشرپسندانہ فطرت کے مالک یہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے جب ایس پی چوہدری اسلم کے قافلے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ لیاری ایکسپریس وے کراچی سے گزر رہے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان کے مہمند ایجنسی دھڑے نے ان پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اور ٹی ٹی پی کے ترجمان سجاد محمد کے مطابق چوہدری اسلم ان کا ٹارگٹ تھے کیونکہ وہ سی آئی ڈی سیلز کراچی میں ٹی ٹی پی کے گرفتار قیدیوں کو مار رہے تھے۔
اگر آج یہ کہا جائے کہ چوہدری اسلم بہت سے لوگوں(پولیس ڈیپارٹمنٹ) کے لئے کامیابی کی علامت ہیں تو بہت سے دیگر لوگوں(مجرموں اور دہشت گردوں) کے لئے ابھی تک وہ خوف کی علامت سمجھے جاتے ہیں تو ہرگز غلط نہیں ہو گا۔ بلا شبہ چوہدری اسلم جیسے افسر پولیس ڈیپارٹمنٹ کی حقیقی شناخت ہیں جو کبھی مٹ نہیں سکتی۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ پولیس کی قربانیاں بھی لازوال اور ناقابل فراموش ہیں۔