ہم اس نبیٔ برحقﷺ کے ماننے والے ہیں جن پر پہلی وحی علم سے متعلق نازل کی گئی ۔لیکن افسوس کہ ہم آج علم کے حصول میں کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔اس کی اہم وجہ پاکستان کا فرسودہ تعلیمی نظام ہے ۔ ہمارا طالبعلم دو کشتیوں کا سوار ہے ایک کشتی جس پر اْردو تحریر ہے تو دوسری پر انگر یزی۔یہی وجہ ہے کہ نہ تو ہما رے طالبعلم کی اْردو اچھی ہے اور نہ انگریزی۔ تعلیمی اداروں میں رٹا سسٹم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔درسی کتب تجر بات کی زد میں ہیں اس کی ایک تازہ مثال پنجاب ٹیکسٹ بْک بورڈ کی دوسری جماعت کی اسلا میات کی کتاب میں من گھڑت واقعات کا شامل ہو نا ہے۔اور بہت سارا ایسا نصاب بھی شامل ہے جس میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ یہاں تک کہ انسان پڑھنے کے بعد سوچنے پر مجبور ہو جا تا ہے کہ اس میں کیا سکھانے کی کو شش کی گئی ہے۔اس کی ایک مثال آپ انٹر میڈیٹ کی انگریزی کی کتاب میں پڑھایا جانے والا ناول مسٹر چپس سے لے سکتے ہیں اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایسے کئی مضامین نصاب کا حصہ ہیں جو ۳۰ سال پہلے ہمارے والدین کو بھی پڑھایا گیا۔اور آج کے اس جدید دور میں بھی ہم وہی پڑھ رہے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب بھی حکمران بدلتے ہیں تو بہت نہیں پر کچھ مسائل کا سدِباب کر نے کے لئے اقدامات کر تے ہیں۔بجٹ بھی مختص کیا جا تا ہے لیکن شائد حکمرانوں کی نظر میں تعلیم کی اتنی اہمیت نہیں ہے کیونکہ خود اْن کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔پاکستان میں سڑکوں کی تعمیر پر تو توجہ دی جا رہی ہے لیکن تعلیم کی بہتری کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہو رہا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی تعلیمی ا ریخ میں شائد ہی کسی ماہرِ تعلیم کو تعلیمی پالیسی کا سر بر اہ بنا یا گیا ہو۔اکژ یہ کام جج ، فو جی یا سیاستدان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آج کل کے نوجوانوں کے پاس ڈگریوں کے تو انبار لگے ہوئے ہیں مگر تر بیت کا فقدان ہے۔ کیونکہ ہمارے فرسودہ نظامِِ تعلیم میں تربیت کے لئے کچھ بھی نہیں کہ جواچھا انسان بننے میں طالبعلم کو مدد دے سکے۔ہمارے ہاں ڈھا ئی سال کے معصوم بچے کو گھر پر بو جھ سمجھا جاتا ہے ، اس کی درست نگہداشت کرنے کی بجائے سکول داخل کرانے کامسئلہ کھڑا ہو جا تا ہے اور ایک بحث شروع ہو جاتی ہے کہ انٹر نیشنل سکولوں میں جائیں جو غیر ملکی کتب اور نصاب پڑھاتے ہیں یا سرکاری سکول میں، اردو میڈیم میں جائیں ، انگریزی میڈیم میں جائیں، مدرسہ میں جا ئیں،یا ایلیٹ کلاس سکول میں جائیں جہاں ۵ سال کی عمر کے بچے کو آئن سٹائن یا نیوٹن بنا دیا جائے۔اس عمر میں ہم بچوں پر کتابوں کا بوجھ لاد دیتے ہیں حالانکہ وہ عمر اْن کی تر بیت کی ہوتی ہے۔ کبھی انگریزی میڈیم، کبھی اردو میڈیم، کبھی ہاف انگریزی، ہاف اردو میڈیم نظام یعنی ہر صورت میں تعلیم کا حصول قوم کے مستقبل کے معما روں کے لئے اذیت بن چکا ہے۔جس کا حل انتہائی ضروری ہے۔ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کیا جائے۔ سر کا ری تعلیمی اداروں کی حالت درست کی جائے اور تعلیم کا معیار اْسی صورت میں بلند ہو سکتا ہے جب حکمران اپنے بچوں کو بیر ونِ ملک کی بجائے ان تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائیں ۔