25 دسمبر کو جہاں ہمارے مسیحی بھائی کرسمس کا تہوار مناتے ہیں، وہیں یہ دن ہم سب پاکستانیوں کے لئے ایک قومی دن کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہی دن ہمارے” بابائے قوم” حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش کا بھی دن ہے۔ یہ اُس انسان کا یومِ پیدائش ہے جو ہمارے “محسنِ عظیم” ہیں اور جن کی بدولت ہم آج آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ اور جس نے ہندوؤں اور انگریزوں کے جبڑوں سے چھین کر ہمارے لئے ایک ایسی مملکت بنائی جہاں ہم پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ ورنہ آج ہمارا بھی وہی حشر ہوتا ، جو کہ بھارت میں تاحال بسنے والے مسلمانوں کا اب تک ہو رہا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ ہمیں یہ دن کیسے منانا چاہیے؟ کیا ہر سال 25 دسمبر کو اپنے عظیم قائد کے لئے صرف کیک کاٹ دینے سے ہمارا فرض ادا ہو جاتا ہے؟یا ہمیں بانئ پاکستان کی روح کی حقیقی تسکین کے لئے کچھ اور بھی کرنا پڑے گا؟ یاد رہے یہ ہمارے جیسے کسی عام انسان کا یومِ پیدائش تو ہے نہیں جو آیا دنیا میں، عیش وآرام کی زندگی بسر کی اور اپنے مفادات کے دائرے میں گھومتے گھومتے چل بسا۔ یہ تو اُس آدمی کا یوم پیدائش ہے کہ جس کے پیشِ نظر صرف ایک ہی بات اہم تھی، وہ تھی برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کا قیام۔ اور جس کے لئے پھر بابائے قوم نے نہ اپنی صحت کی پروا کی اور نہ اپنے اہل وعیال کے مستقبل کی۔ بلکہ اپنے شب و روز ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل دینے کے لئے صرف کر دئیے۔کیا ایسے شخص کے لئےصرف کیک کاٹنے سے حق ادا ہو جائے گا؟
نہیں ہرگز نہیں۔اگر ہم اپنے بابائے قوم کا یوم پیدائش صحیح معنوں میں منانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے ان کے دئیے ہوئے نایاب تحفے کی قدر کرنا پڑے گی۔ جس کے لئے ہمیں اپنے اپنے دفاتر میں عظیم قائد کی تصویر کے سائے تلے بیٹھ کر ،ہر وہ کام ترک کرنا پڑے گا، جو ہم یقینی طور پر کسی کے بھی سامنے نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنی سڑکوں پر لوگوں کے لئےآسانیاں پیدا کرنا ہوں گی تاکہ بزرگ شہری، نابینا افراد اور خواتین بنا کسی سہارے کے اکیلے اس یقین کے ساتھ باہر نکل سکیں کہ انکی امداد کے لئے انکے قابل بھروسہ، ہم وطن شہری ہمہ وقت وہاں موجود ہونگے۔ ہمیں اپنے اسپتالوں کو شفا اور خیر کا وسیلہ بنانا پڑے گا کہ جہاں سے جب کوئی شفا یاب ہو کر واپس اپنے گھر جائے تو اسکے کندھوں پر قرضے کا بھاری بوجھ ، اسے پھر سے بستر پر نہ ڈالے۔ ہمیں قائد کے پاکستان میں رائج متنوع اقسام کے نظام تعلیم کو ختم کر کے ایک ایسے مضبوط و مربوط تعلیمی نظام کی داغ بیل ڈالنا ہو گی، کہ جس کی جڑیں ہماری اسلامی اقدار اور قومی شعار سے جڑی ہوئی ہوں ۔ جہاں کوئی بھی امیر زادہ کم نمبروں کے با وجود سیلف فنانس کے بل بوتے پر ڈاکٹر اور انجینیئر نہ بن سکے اور غریب کا بچہ اسّی اسّی فیصد نمبر حاصل کرنے کے باوجود دھکے نہ کھاتا پھرے۔ قائد کے پاکستان کو اب ایک ایسا معاشرتی نظام درکار ہے جہاں اعلٰی مُلکی عہدوں پر فائز ہونے کے لئے بھی کوئی تعلیمی قابلیت مختص ہو، تاکہ اب ہمارا ملک بھی سیاستدانوں کے نام نہاد جمہوری بقا کے مفاد میں چلنے کے بجائے قومی اور عوامی مفاد کو پیش نظر رکھ کر چلایا جا سکے۔ جہاں اقتدار چند خاندانوں تک مقید نہ ہو، اور جہاں کی پولیس عوام کے جان و مال کے تحفظ کی بجائے وی وی آئی پی پروٹوکول پر مامور نہ ہو۔
موجودہ پاکستان کو قائد اعظم کے خواب کے مطابق ڈھالنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنا اپنا انفرادی رویہ بدلنا ہوگا۔ جہاں آج ہم رہتے ہیں یقین مانیں یہ ہمارے قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے۔ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کے قیام کو ممکن بنانے کی خاطر حضرت قائد اعظم نے اپنے آرام و صحت تک کی پروا نہیں کی۔ اگر آج ہم اپنے اپنے گھر کو سنوار لیں تو ہمارا قومی قبلہ خود بخود درست سمت لے لے گا۔ بات صرف احساس ہی کی تو ہے آخر۔۔۔۔