8 ستمبر، جسے پاکستان میں یومِ فتح (victory day) اور یوم بحریہ کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن کی یاد دلاتا ہے جب جنگِ ستمبر میں زمینی اور فضائی محاذوں کے علاوہ پاک بحریہ نے بحری محاذ پر بھی دشمن پر اپنی دھاک بٹھا دی اور دشمن کو پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہو سکی۔
6 ستمبر 1965ء کی جنگ کے آغاز پر پاک بحریہ کے سربراہ افضل رحمٰن خان نے اولاً پاک بحریہ کو دفاعی پوزیشن سنبھالنے کا حکم دیا، مگر بعد میں پاک بحریہ نے جارحانہ حکمت عملی اپناتے ہوئے اس جنگ کو بھارتی پانیوں میں لڑنے کا فیصلہ کیا۔
7 ستمبر 1965ء کو پاک بحریہ نے مغربی بھارتی ساحل پر حملے کا فیصلہ کیا اور “آپریشن دوارکا” کا آغاز کیا۔ دوارکا کا انتخاب اس کے نزدیکی محل وقوع، کمزور دفاع، اس کے تاریخی پس منظر اور اس کے ریڈار سسٹم کی وجہ سے کیا گیا جو کہ پاک فضائیہ کے لئے ایک خطرہ ثابت ہو سکتا تھا۔ اس آپریشن کے مقاصد میں دوارکا میں موجود ریڈار سسٹم کو تباہ کرنا، جنوبی محاذ سے دباؤ کم کرنا، بھارتی فضائیہ کی کارروائیوں کو شمال کی جانب سے ہٹانا اور دشمن کے یونٹ کو بمبئی سے باہر لانا تھا تاکہ “پی این ایس غازی” انہیں اپنا شکار بنا سکے۔
اس کارروائی میں پاک بحریہ کے سات بحری جہازوں پی این ایس بابر، پی این ایس خیبر، پی این ایس بدر، پی این ایس عالمگیر، پی این ایس جہانگیر، پی این ایس شاہجہان اور پی این ایس ٹیپو سلطان پر مشتمل بحری بیڑے نے حصہ لیا۔
سات ستمبر کی رات جب یہ بحری بیڑہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا تو انہیں دشمن کی عددی اور تکنیکی برتری کا مکمل ادراک تھا۔ رات گیارہ بجے کے قریب یہ بحری بیڑہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا اور کامیابی سے دوارکا کے تاریخی مندر ، ریلوے اسٹیشن اور ریڈار سسٹم کو نشانہ بنایا۔ ہر بحری جہاز نے پچاس شیل فائر کئے اور قریباً آدھ گھنٹہ کامیابی سے آپریشن انجام دینے کے بعد بحفاظت اپنے ساحل پر پہنچنے میں کامیاب رہے۔
جنگِ ستمبر میں دشمن کی بحریہ کو پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ایک اور دیوار کھڑی تھی جس کا نام تھا آبدوز”غازی” !
یہ ایک امریکی آبدوز تھی جسے پاک بحریہ نے 1963ء میں چار سالہ لِیز پر حاصل کیا تھا۔ یہ آبدوز بیک وقت 28 زیر آب تیر کر مار کرنے والے بموں سے لیس کی جا سکتی تھی۔ جنگ کے دوران”غازی” نے اپنا بیشتر وقت”دوارکا” کے گردوپیش میں گزارا۔ اس کے عملے کی قیادت کمانڈر کرامت رحمان نیازی کر رہے تھے۔ “غازی” کے ذمہ طیارہ بردار”وکرنت” کے خطرے کو ٹالنا تھا اور اس کے احکامات میں شامل تھا کہ وہ وکرنت یا بھارتی کروزوں کے علاوہ کسی کو نشانہ نہ بنائے۔ یہ تینوں جہاز مرمت کی غرض سے بندرگاہ پر تھے اور جنگ کے دوران ان کی مرمت مکمل ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔
بھارتی اپنے پانیوں میں”غازی” کی موجودگی سے واقف تھے، مگر اس کی موجودگی سے خائف بھی تھے۔ چند ایک بار بھارتی بحریہ نے”آبدوز شکن فریگیٹ” بھی “غازی” کی تلاش میں روانہ کئے، مگر وہ اتنے چھوٹے تھے کہ “غازی” کو متوجہ کرنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ دشمن نے “غازی” کو ان جگہوں پر تلاش کرنا شروع کیا جہاں اس کی غیر موجودگی کا یقین ہوتا تھا، بعدازاں یہی رپورٹ پیش کی جاتی کہ کسی بھی آبدوز کی موجودگی کے آثار نہیں ملے!
کمانڈر نیازی بھارتی جہازوں کے انتظار سے تنگ آ چکے تھے اور اب خواہاں تھے کہ انہیں کسی بھی نزدیک آنے والے بھارتی جہاز پر حملہ کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ آخرکار بیس ستمبر 1965ء کو انہیں یہ اجازت مل گئی۔
یہ 22 ستمبر 1965ء کی شام کا ذکر ہے جب انہیں چار بھارتی بحری جہاز دکھائی دئیے۔ یہ چاروں فریگیٹ تھے جو ساحل پر نصب ریڈار کے ذریعے”غازی” کی تلاش میں نکلے تھے۔ کمانڈر نیازی نے “غازی” کو تہِ آب کے قریب کیا اور ان جہازوں پر تارپیڈو چھوڑ دئیے۔ دھماکوں کی آواز کے بعد بھارتی فضائیہ اور بحریہ نے “غازی” کو ڈھونڈنے کی ایک اور کوشش کی مگر “غازی” کو ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کا گُر معلوم تھا۔جنگ کے اختتام پر”غازی” بحفاظت اپنی منزل پر واپس پہنچ چکی تھی۔
گو کہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے آپریشن دوارکا کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو ہمیشہ “جزوی” قرار دیا، مگر آپریشن دوارکا کے جواب میں کوئی بھی کارروائی نہ کرنے اور “غازی” کی تلاش میں ناکامی پر بھارتی بحریہ اور پارلیمنٹ کو عوام کے سامنے سُبکی اٹھانا پڑی، جواباً یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی حکومت اس جنگ کو زمین تک محدود رکھنا چاہتی تھی، مگر بھارتی بحریہ کی اس کارکردگی کے بعد اسے اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جبکہ”غازی” کی تلاش میں ناکام رہنے کے جرم میں بھارتی بحریہ کے کمانڈر ان چیف کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔
قصہ مختصر پاک بحریہ اور “غازی” بھی اس جنگ میں اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہے!