وہ بچہ جب سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو روزانہ صبح اُٹھ کر نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا تھا۔والد صاحب مسجد سے عبادت کے بعد واپس آتے اور اُسے دیکھ کر مسکراتے۔ایک صبح وہ تلاوت کرہاتھا تو والد صاحب نے فرمایا:
”کبھی فرصت ملی تو تمھیں ایک بات بتاﺅں گا۔”
بچہ بے چین ہوگیا ،کافی دفعہ اصرار کرنے کے بعد والد صاحب نے کہا کہ
”پہلے امتحان دے لو تب۔۔۔”
اور جب بچے نے امتحان دے دیا اور لاہور پہنچ گیا تو پھر انہوں نے کہا :
جب پاس ہوجاﺅ گے تب۔۔۔”
جب وہ بچہ پاس ہوگیا اور والد صاحب کے پیچھے پڑگیا تو والد صاحب نے کہا کہ ہاں ہاں بتادوں گا۔ایک صبح جب وہ بچہ تلاوت کررہا تھا تو والد صاحب پاس آئے اور فرمایا :
”بیٹا!جب تم قرآن پڑھا کرو تو یوں محسوس کیا کرو کہ اﷲتعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے۔”
والد کا یہ فقرہ بچے کے دل میں اتر گیا اور پھر اس فقرے کی لذت اُس بچے کے کام اور کلام میں ساری دنیا نے دیکھی.
جی ہاں ۔۔۔اس بچے کا نام علامہ محمد اقبال تھا،آپ 9نومبر کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے
اپنے دین سے محبت ان کے دل میں بچپن سے تھی۔ہمارے اقبال ۔۔۔۔قومی شاعر ایک مفکر اور فلسفی شاعر کے مزاج میں شگفتگی،رحمدلی اور ایسی ہی کئی اور صفات بھی تھیں۔اُن کی محفل ہر ایک کے لئے عام ہوتی تھی۔باوجود اس کے کہ بڑے بڑے افسران، حکام اور اربابِ علم وفن آپ کے پاس آتے رہتے تھے ۔یوں کہئے کہ اُس وقت وی آئی پی کلچر کا رواج نہ تھا ۔
عموماََچارپائی پر تکیہ لگائے لیٹے ہوئے حقہ پیتے رہتے تھے۔آپ سے ملنا آسان ہوتا تھا ،نہ کوئی دربان موجود ہوتا تھا اور نہ میٹنگ کے لئے وقت درکار ہوتا تھا۔
علامہ کی شعر و شاعری ایک وقت پر محیط نہ ہوتی تھی بلکہ موقع مناسبت دیکھ کر شعر کہہ دیتے تھے۔طالب علمی کے زمانے میں اقبال اور ان کے ہم جماعت ساتھیوں نے ایک استاد کا نام ”ماسٹر جھنڈا”رکھا ہوا تھا۔ایک دفعہ اقبال نے ماسٹر صاحب کی ہجو میں ایک شعر کہا اور کاغذ پر لکھ کر چپکا دیا۔ماسٹر صاحب نے شعر پڑھا اور معاملہ ہیڈ ماسٹر صاحب تک جا پہنچا ۔سزا کے طور پر اقبال کو ایک اٹھنی جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
دوسرے دن اقبال ایک روپیہ لے کر ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچ گئے اور روپیہ ان کی میز پر رکھ دیا اور فرمانے لگے
بقایا رہنے دیجئے ،کیوں کہ ماسٹر صاحب کی شان میں ایک اور شعر موزوں ہو گیا ہے،جس کا جرمانہ پیشگی دینا چاہتا ہوں۔”
علامہ اقبال کو ایک بار یہ خیال آیا کہ شاعری بے معنی اور فضول کام ہے اور اسے چھوڑ دیا جائے تاکہ اسی وقت کو کسی اور مفید کا م میں لگاسکیں۔
پروفیسر آرنلڈ اقبال کے گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد تھے ،اقبال اُن سے بہت متاثر تھے ۔پروفیسر نے اقبال کی شاعری کو سراہا اور کہا کہ شاعری کوئی معمولی کام نہیں یہ خدا کی طرف سے دی گئی ایک صلاحیت ہے۔
بے نیازی ،قناعت اور توکل آپ کاخاصہ تھا۔باوجود یکہ آپ کے مزاج میں نفاست پسندی موجود تھی اور خوش غذائیں مرغوب تھیں مگر آپ کے ملازم علی بخش کا بیان ہے کہ
‘اب تو میں خدا کے فصل سے اچھا خاصا باورچی ہوں لیکن ایک زمانے میں کچھ واجبی سا پکانا آتا تھا پھر بھی جیسا الٹا سیدھا پکتا ،ڈاکٹر صاحب کھالیتے تھے۔
٭٭٭
اقبال نے خودی پر کافی شعروشاعری کی اور نوجوان نسل کو شاہین سے تشبیہ دی ۔وہ نوجوان نسل کو بیدار کرنا چاہتے تھے ۔اُن کی شاعری سے یہ بات جھلکتی ہے۔نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے بھی کئی سبق آموز نظمیں لکھیں،جن میں ماں کا خواب ،پرندے کی فریاد،جگنو شامل ہیں۔
فلسفے سے متعلق ایک دفعہ محفل میں کسی نے پوچھا:
آپ عالم بھی ہیں اور فلسفی بھی۔۔۔کیا آپ اﷲ تعالیٰ کا وجود ثابت کرسکتے ہیں؟؟
اقبال نے کہا نہیں
یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ پھر آپ نے اﷲ کا وجود کیونکر تسلیم کیا؟
علامہ نے اس شخص کو جواب دیا :خدا کی ہستی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
سر راس مسعود مرحوم اقبال کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
‘میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے،ضرورت سے زیادہ ہوس کرنا ،روپیہ کا لالچ ہے۔جن بزرگوں کی آپ اولاد ہیں ،وہ ہم سب کے لئے زندگی کا نمونہ ہیں،ان کا شیوہ ہمیشہ سادگی اور قناعت رہا ہے۔
حکومت نے آپ کو ”سر”کے خطاب سے نوازا۔اقبال جیسا شاعر صدی میں پیدا ہوتا ہے۔بانگ درا کی ایک نظم”والدہ مرحومہ کی یاد میں’کا آخری شعر پیش خدمت ہے
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے