‘پاکستانی ہاکی ٹیم ریو اولمپکس سے باہر۔’
خبر چند ماہ پرانی ہے، اور شاید کرکٹ کے جنون میں مبتلا عوام کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا، لیکن یہ خبر ان لوگوں کے لئے اداسی کا سبب ضرور بنی ہے جو پاکستان ہاکی کے عروج کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں یا اس سنہری دور کے بارے میں علم رکھتے ہیں۔
ہاکی، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہاکی کے میدان میں پاکستان کی کامرانی کا پرچم لہرایا کرتا تھا، وہ دور کہ جب پاکستانی ہاکی ٹیم نے ہاکی کے چار ورلڈ کپ جیتے، اولمپک گیمز میں تین، ایشین گیمز میں آٹھ، ازلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں تین، چیمپئنز ٹرافی میں تین اور ایشیا کپ میں بھی تین طلائی تمغے حاصل کئے جبکہ چاندی اور کانسی کے حاصل کردہ تمغے ان کے علاوہ ہیں۔
یوں تو آج کل ہاکی کا کھیل تنزلی کا شکار ہے، مگر ماضی میں پاکستان ہاکی ٹیم کے لئے کھیلنے والے عظیم کھلاڑیوں کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انہی میں سے ایک نام “سہیل عباس” کا ہے، جو پاکستان ہاکی ٹیم کا ایک درخشندہ ستارہ ہیں۔
سہیل عباس 9جون 1975 ء کو کراچی کے ہولی فیملی اسپتال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حبیب پبلک اسکول سے حاصل کی جس کی شہرت اس حوالے سے ہے کہ وہاں”ہاکی” کو بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ گو کہ سہیل عباس کے والد ایک فرسٹ کلاس کرکٹر تھے مگر سہیل بذاتِ خود ہاکی کے لئے اپنے چچا صفدر عباس سے متاثر ہیں جنہوں نے 16 سال کی عمر میں 1974ء کے ہاکی ورلڈ کپ میں شرکت کی۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
کے مصداق سہیل عباس کو اپنا آپ منوانے اور ٹیم میں جگہ بنانے کے لئے ابتدائی طور پر بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے دوسرے کھلاڑیوں کی طرح سہیل بھی جونیئر سکواڈ سے ابھر کر سامنے آئے. 1995ء میں کوئٹہ میں منعقد ہونے والی اٹھارہویں جونیئر نیشنل ہاکی انڈر 18 چیمپئن شپ میں شاندار کارکردگی کے بعد جونیئر سکواڈ میں جگہ تو بنا لی مگر انہیں نیدرلینڈز، جرمنی اور پولینڈ کے بین الاقوامی دوروں میں کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ 1997ء میں جونیئر سکواڈ میں واپسی کے محض چار ماہ بعد انہیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔
1998ء سے اپنا ہاکی کیرئیر شروع کرنے والے سہیل عباس ایک مایہ ناز ڈیفینڈر، پینلٹی کارنر کے ماہر اور پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان ہیں۔ فیلڈ ہاکی کی تاریخ میں سب سے زیادہ گول اسکور کرنے کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہے۔ ان کا پینلٹی کارنر پر گول اسکور کرنے کا طریقہ ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے، ان کا مشہورِ زمانہ drag flick اور گول! جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مدِ مقابل ٹیم کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی طریقے پر گول اسکور کریں گے لیکن اسے مسدود کرنے کا طریقہ وہ آج تک دریافت نہیں کر سکے۔
1998ء میں اپنے انٹرنیشنل ہاکی کیرئیر کے آغاز پر پہلے سال میں سہیل عباس نے 20 گول اسکور کئے اور کامیابی کے اس سفر میں رکنا یا مڑ کر دیکھنا گوارا نہیں کیا۔ 1999ء میں 60 گول اسکور کر کے ایک کیلنڈر ائیر میں سب سے زیادہ گول کرنے کا Litijens کے 58 گول کا بین الاقوامی اور حسن سردار کے 50 گول کا قومی ریکارڈ توڑا۔ انہوں نے دو سال 6 مہینے اور اٹھارہ دن کی قلیل مدت میں اپنے 100 گول مکمل کئے جو دنیا کی تاریخ میں سب سے تیزی سے 100 گول مکمل کرنے کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ 2002ء میں 151 گول اسکور کر کے سہیل عباس نے پاکستان ہاکی کی تاریخ میں سب سے زیادہ گول اسکور کرنے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔
اپنی سابقہ کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے محض پانچ سال، پانچ مہینے اور 16 دن میں اپنے 200 گول مکمل کئے جو کہ فیلڈ ہاکی میں سب سے تیزی سے 200 گول مکمل کرنے کا ایک اور عالمی ریکارڈ ہے۔
قدرتی طور پر ‘شارٹ کارنر ایکسپرٹ’ گردانے جانے والے سہیل عباس کے انٹرنیشنل ہاکی کے کیرئیر پر سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، جہاں وہ بہت سے ریکارڈ بناتے اور بہت سے ریکارڈ توڑتے نظر آتے ہیں، مثال کے طور پر
فیلڈ ہاکی میں سب سے زیادہ انفرادی گول کرنے کا اعزاز ان کے پاس ہے۔
فیلڈ ہاکی کی تاریخ میں سہیل عباس سب سے پہلے کھلاڑی ہیں جنہوں نے 300 گول اسکور کئے۔ ڈریگ-فلِک کے ذریعے گول کرنے میں سب سے کامیاب کھلاڑی انہیں گردانا جاتا ہے، جہاں اس طریقے سے گول اسکور کرنے میں ان کا کامیابی کا تناسب 65% ہے۔ ان کے ریکارڈ پر ایک ‘ڈبل ہیٹ ٹرک’ اور 21 ہیٹ ٹرک شامل ہیں، یہ فیلڈ ہاکی میں وہ منفرد ریکارڈ ہے جسے کوئی اور کھلاڑی برابر نہیں کر سکا۔ 10ویں ہاکی ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ گول اسکور کرنے کا مشترکہ اعزاز ان کو حاصل ہے جہاں انہوں نے سب 10 گول پینلٹی کارنر پر اسکور کئے!
2012ء میں انہیں پاکستان ہاکی ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا، لیکن ازلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ اور لندن اولمپکس 2012 میں ہاکی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد سہیل عباس کو قومی ہاکی ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔
سہیل عباس کی محنت اور ہاکی کے لئے لگن، جو انہیں ہاکی میں living legend کا درجہ دلاتی ہے، نہ صرف قابلِ ستائش ہے بلکہ ہاکی کھیلنے کے خواہش مند بہت سے نئے آنے والے کھلاڑیوں کے لئے بھی مشعلِ راہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی صلاحیتوں سے کماحقہ فائدہ اٹھایا جائے۔ اور ہاکی، جو آج بھی پاکستان کا قومی کھیل ہے، اسے وہ مقام، وہ عزت اور وہ وسائل دئیے جائیں جو قومی کھیل ہونے کے ناطے اس کا حق ہیں۔ اور اس کھیل کے ذریعے ملک کا نام روشن کرنے والوں کو بھی وہ نام اور مقام دیا جائے جس کے وہ اصل حق دار ہیں!