“ہمیں جو دکھ دیا گیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، مگر ہمیں پاکستان کو قائم رکھنے کیلئے ابھی اور قربانی دینا ہوگی۔ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں۔”
یہ وہ الفاظ ہیں جو بانئ پاکستان نے اس قوم کا حوصلہ قائم رکھنے کیلئے ادا کئے جو اپنی جداگانہ مملکت کے حصول کے لئے جاں گسل مراحل سے گزر چکی تھی اور جسے اب اپنی تعمیر کے اسباب تلاش کرنا تھے، ایک طرف ایک کروڑ پچیس لاکھ مہاجرین کو بسانا تھا تو دوسری طرف اپنے نوزائیدہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا، وہ ملک جس کے ساتھ جغرافیائی تقسیم اور اثاثہ جات کی تقسیم دونوں میں بددیانتی برتی گئی تھی، جس کے دریاؤں کے ہیڈ ورکس اور بجلی کی ترسیل کا نظام ہندوستان میں رہ گیا تھا، جس کے پاس اپنا سرکاری پرنٹنگ پریس اور اسلحہ ساز فیکٹری نہیں تھی، جس کے حصے میں آنے والے اسپتال اور میڈیکل کالجز کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔
مگر آج 68 سال گزرنے کے بعد میڈیکل کا شعبہ اپنے پاؤں پر کھڑا نظر آتا ہے جہاں سرکاری اور نجی شعبے میں موجود اسپتالوں کی تعداد تقریباً 380 کے قریب ہے، جبکہ سرکاری اور نجی شعبے کے میڈیکل کالجز کی تعداد 94 ہے جو کہ بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم شدہ ہیں۔
نیوکلئیر میڈیسن کا ادارہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قائم کردہ ہے جس کے تحت ملک بھر میں بہت سے تحقیقاتی ادارے بنائے گئے ہیں جہاں نیوکلئیر تکنیک کو استعمال میں لاتے ہوئے کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ریڈیوکیمسٹری اور بائیو کیمسٹری کے شعبوں میں تحقیق کے لئے معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔
میڈیکل ٹورزم کا شعبہ حکومتی توجہ کا محتاج ہے، جس کا دارومدار ملک میں ہونے والی اعضاء کی سستی پیوندکاری پر ہے۔ کورنئیل ٹرانسپلانٹ (corneal transplant), لِور ٹرانسپلانٹ (liver transplant) اور کڈنی ٹرانسپلانٹ (kidney transplant) ملک میں ہونے والے اہم ٹرانسپلانٹ ہیں جبکہ پاکستان بہت جلد دل کی پیوندکاری شروع کرنے والا ہے۔
اس ضمن میں پاکستانی ڈاکٹروں کی ایجادات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں، جنہوں نے نہ صرف انسانیت کی خدمت میں اہم کردار ادا کیا بلکہ ملک کا نام بھی پوری دنیا میں روشن کیا۔ ان میں ڈاکٹر ایوب خان امیہ کا ایجاد کردہ امیہ ریزروائر، ڈاکٹر سید امجد حسین کا ایجاد کردہ پلوروپیری ٹونئیل شَنٹ اور اینڈوٹریکئیل ٹیوب، ڈاکٹر اے کے جمیل کا اینستھیزیا کے دوران استعمال ہونے والا Non kink catheter ڈاکٹر فیصل کاشف کا Intracranial pressure کو مانیٹر کرنے والا غیر حراحتی طریقہ قابل ذکر ہیں۔
پاکستان میں صحت عامہ کا شعبہ ابھی ترقی کے لحاظ سے بہت سے ممالک سے پیچھے ہے، جہاں سہولیات اور عام عوام میں آگہی کا فقدان نظر آتا ہے، جہاں ابھی بہت سے شعبوں میں بہت سی محنت درکار ہے، مگر صفر کے ہندسے سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی قوم کا یہ سفر بھی اپنی مثال آپ ہے، جسے اپنے قائد کے فرمان کے مطابق ابھی مزید محنت کرنا اور قربانی دینا ہوگی تاکہ آنے والی نسلیں اس کے قدموں کے نشان دیکھ سکے اور اس ملک کا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کیا جا سکے۔