جدید معلوم تاریخ کے محض طائرانہ جائزہ سے اس بات کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق وسطٰی میں وقوع پذیر ہوتے بیشتر معاملات کا اثر خطے اور دنیا کے عمومی عوامی مزاج کی تشکیل کا باعث اوراکثراوقات کئی دیگرعلاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی ریاستی پالیسیوں میں اتارچڑھاؤ کابنیادی سبب بنتا ہے- تیل کی تجارت کے ماخذ اور تینوں بڑے الہامی مذاہب کا مرکز ہونے کے کی وجہ سے دنیا کی آبادی کے اکثریت کی دلچسپی سے پھوٹنے والےمحرکات کے باعث ان اسباب کی سوتی شاخیں مزید کئی اطراف میں منتشررہتی ہیں- مندرجہ بالا بیان کیے گئے عوامل کی موجودگی اس امر کی متقاضی ہے کہ مشرق وسطٰی میں شکل پاتی مذہبی, سیاسی اورفوجی صورتحال اوراسکی تفصیلات پر پاکستانی مفادات کے تحفظ کے نقطۂ نظرسے مزین تاثر کی سفارتی اور سیاسی سطح پر مربوط اقدامات کے زریعے مثبت ترویج کی جائے-
ایران امریکہ ایٹمی معاہدہ کے پس منظرمیں بھڑکتی سلگتی عرب ایران چپقلش نے ایک نئی کرو ٹ لی ہے , ایران اورامریکہ کی کم ہوتی دوریوں نے خطےمیں موجود امریکہ کے روایتی عرب حلیفوں جو اتفاق سے ایران کے روایتی حریف بھی ہیں کے کان کھڑے کردیئے ہیں۔ اسکے سدباب کے لیے سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا حالیہ دورہ روس علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل نظر آتا ہے۔ گوکہ امریکیوں کا روس کے بارے میں عمومی رویہ ایک ایسی ریاست کا سا ہے جو امریکہ کی نظر میں ولادیمرپیوٹن جیسےرجعت پسند اور سوویت یونین کی عظمت رفتہ کی بحالی کے متمنی آمر کے زیر سایہ رہتے ہوئے اس عظمت گمشدہ کی تلاش میں اٹھائے گئے جارح اقدامات کے سنگین نتائیج کی روشنی میں مکمل بربادی کی راہ پر گامزن ہے – تاہم روس میں دس ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری اس بات کا اعلان ہے کہ سعودیوں کا خیال شاید اسکے قطعی بر عکس ھے- اگر سعودیوں اور روسیوں کے ماضی کے تعلقات پر نظر ڈالی جائے تو موجودہ مصنوعی گرمجوشی کافی حیران کن لگتی ہے- دونوں ممالک بین الاقوامی منظر نامے پر کئی اہم محاذوں پر ایک دوسرے کے خلاف مدمقابل صف آراء نظر آتےہیں – مثلاً تیل کی پیداوار کی تجارتی مسابقت, اسلامی انقلاب کے بعد ایران کی روسی حلقہ اثر میں آمد جو تب ہی سے سعودی مخالفت کا فکری گڑھ رہا ہے,روس کی جانب سے ایران اور شام کی فوجی و سیاسی حمایت اور حالیہ دنوں میں روس کی جانب سے جدید طیارہ شکن میزائیل سسٹم کی ایران کو فروخت زیادہ پرانی بات نہیں، جبکہ دوسری طرف سعودی اقدامات جو روس مخالف ہیں انکی فہرست بھی کا فی سنگین اور طویل ہے جیسے 80 ءکے عشرے میں جاری افغان جنگ میں مزاحمتی قوتوں کی سعودی عرب کی جانب سے بھرپور مالی امداد, امریکی ایماء پر روس اور ایران کی تیل کی تجارت کو شدید نقصان پہنچانے کے غرض سے سعودی حکومت کی جانب سے پیداوار بڑھا کر تیل کی فی بیرل قیمت کو تاریخ کی کم ترین سطحوں میں سے ایک پر لا کر کھڑا کر دینااور آج بھی اسی تناظر میں سعودی عرب کا شام میں موجود روسی حمایت یافتہ بشارالاسد حکومت کے خلاف مصروف رہنا شامل ہے –
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوپر بیان کیے گئے اتنے تضادات کی موجودگی میں یہ کیونکر ممکن ہوا کہ سعودی اور روسیوں میں قربتیں بڑھنا شروع ہو گیئں اور معاملہ سینٹ پیٹرزبرگ میں یادداشتی معاہدہ پر دستخط پر طے ہوا جس کی رو سے روس 16 جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر میں سعودی ماہرین مدد کرے گا- جواب سادہ سا ہے یعنی ایران امریکہ جوہری معاہدہ – خطے کے بدلتے تجارتی و سیاسی طاقت کے توازن نے دوستیوں اور دشمنیوں کی تعریف بھی بدلنا شروع کر دی ہے- نئی صف بندیوں کا دور ہے- ایران پر ڈھیل پاتی تجارتی پابندیاں اور اسکے جوہری مقاصد کی جانب مغربی قوتوں کا نرم رویہ اور اسکے نتیجے میں معاشی و فوجی قوت کے طور پر تیزی سے ابھرتا شیعہ ایران سنی عرب بادشاہتوں کا ڈراؤنا خواب ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کی ایران کے معاملے پر روا رکھی گئی نرمی نے سعودی شاہی خاندان میں بھی تقسیم برپا کر رکھی ہے- بظاہر اندرون خاندان دو واضح گروہ مختلف معاملات پر متحارب نکتہ نگاہ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ولی عہد اول محمد بن نائف امریکی جی حضوری اور زیادہ اتھل پتھل نہ کر کے روایتی جمود کے تسلسل کو جاری رکھنے کے داعی جبکہ نائب ولی عہد محمد بن سلمان پالیسی میں جدت کے خواہاں دکھتے ہیں – محمد بن سلمان یمن میں کیے گئے فوجی اقدام کے روح رواں کے طور پرفوجی کاراوائی کے بے نتیجہ ہونے کے باوجود عام نوجوان سعودی شہریوں میں بھی کافی مقبولیت کے حامل اور عام طور پر اگلے سعودی سربراہ حکومت کی حثیت سے جانے جاتے ہیں-
ادھر ایران نے بھی اپنے پتے بڑے سنبھل کر کھیلے ہیں- ماضی پرستی اور اقوام کی فہرست میں ایرانی بھارتیوں سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں – دارا اور خسرو کے دور کی عظمت کے گن گاتے حافظ شیرازی کی مثنویوں اورفردوسی کے رستم و سہراب کے قصوں کی گونج آج بھی ایرانی معاشرہ میں سنائی دیتی ہے- اپنے ماضی پر رشک کرنا قطعی کوئی نازیبا وصف نہیں لیکن ان قصوں سے اجتماعی سرور کشید کرنا اور اس کی خیرہ کن لذت میں ہمہ وقت گم رہ کر حال کی حقیقتوں کو ماضی کی عینک سے دیکھنا دانشمندوں کا شیوہ نہیں- ایرانی پالیسی سازوں کا آج کے دور میں اپنی مملکت کی حدود مصر اور افغانستان تک دیکھنا اورماضی کے اس سنہری دورکی ازسرنو کسی قریب ترین صورت میں بحالی کی تگ و دومیں لگے رہنا اسی حقائق کے منافی ناسٹیلجک پالیسی کا نتیجہ ہے – “مرگ
برامریکہ” اور “شیطان بزرگ” کے نعروں سے لیکر حالیہ ایران امریکہ جوہری معاہدہ تک کا سفر شاید ایرانی اسلامی انقلاب کے نظریاتی کارکن اورامام خمینی کے خوش نیت پیروکاروں کے لیے ایک کڑوی گولی ہو، لیکن تاریخی تناظر میں ایرانی پالیسی کا تسلسل ہے چاہے دورِ حکومت رضاشاہ پہلوی کا ہو پاسدارانِ انقلاب کا!
ان تمام عوامل کی موجودگی اور خطے میں داعش کی صورت میں مضبوط ہوتے تکفیری فرقہ ورانہ سوچ کے علمبردارغیرریاستی عناصر کا ایک نئے جھنڈے تلے جمع ہونا, شام و عراق میں اس کے عروج میں ملوث و مددگار بعض مغربی انٹیلیجنس اداروں کا مبینہ متنازع کردار, سعودی عرب, بحرین اور کویت میں بڑھتے فرقہ ورانہ دہشت گردی کے شدید افسوسناک واقعات اور اسکے نتیجے میں شیعہ برادری کا بڑھتا اضطراب, یہ کچھ ایسے حقائق ہیں جو اس تمام صورتحال کا پیچیدہ مرکب تشکیل دیتے ہیں اور مستقبل قریب میں حالات کے انتہائی تشویشناک رخ اختیارکرنے کا واضح اشارہ کرتے نظر آتے ہیں- افغانستان سے آتی داعش کی پروان چڑھنے کی خبریں اور ان میں ضرب عضب کے دباؤ کے نتیجے میں افغانستان کی طرف فرار ہوتے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مفرورارکان کی شمولیت اور انکا افغان طالبان سے پیدا ہوتا ٹکراؤ پاکستان کی سلامتی و امن وامان کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے –
علاقائی صورتحال اور سعودی عرب اور ایران کے ملکی منظرناموں پرچھاتے عقاب اور انکے ایک دوسرے کے بارے میں سخت مؤقف مشرق وسطٰی میں ایک نئی سنگین صورتحال کے بتدریج پروان چڑھنے کے آثار کے طور پر افق پر واضح ہوتے جا رہے ہیں- ایرانی جوہری پروگرام اور عربوں کی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوششیں,یمن اور شام میں جاری پراکسی لڑائیاں , عراق میں قائم ہوتا ایرانی اثروںفوذ اور نتیجتاً عربوں میں بڑھتا ہراس اور اس کے ردعمل کے طور پر انکی یمن میں حوثیوں کے خلاف اندھادھند بمباری ان آثار کی چند اہم نشانیوں میں سے ایک ہے- مستقبل کے کسی بھی گرم عرب ایران شیعہ سنی تنازع کا نتیجہ مسلم دنیا میں آگ کی طرح پھیلتی فرقہ ورانہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلےگا – جس کا واحد فائدہ اسرائیل کو ہوگا- سعودی اکابرین اور ایرانی زعماء کو اپنی ذات سے بلند ہو کر معاملہ کے تمام تنازعات اور تصفیہ طلب امورکوبات چیت اور رابطے کی ذریعے طے کرنا چاہیے اس سلسلے میں دونوں فریقین کو انکے تحفظات,تعصبات اور اندیشوں کے کوہ ہمالیہ سے اترکر بات چیت کے لیے ماحول سازگار بنانے کےلیے پاکستان کوایک مثبت مصالحتی کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ بظاہر محض عرب ایران دکھتا تنازع جلد یا بدیرعسکری فرقہ ورانہ شدت پسندی کے سیلاب کی شکل میں پاکستان کا رخ کرتے دیر نہیں لگائے گا ۔ایران اور سعوی عرب طاقت کے توازن کو قائم کرنے کے بجائے اپنے اپنے تعصبات کے اسیر رہ کر پاکستان سمیت دیگرمسلم ممالک میں اپنی اپنی پراکسی لڑ تے ہوئے گذشتہ چند دہائیوں میں خطے میں صرف بگاڑ کا باعث بنے ہیں- نئی پیدا ہوتی صورتحال میں معاملے کی سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے حل کی کوششوں کو محض عربوں اور ایرانیوں کی باہمی دانش پر چھوڑنا ایک بار پھر غیر سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔