کراچی اور سندھ کے امن و امان کی بحالی کے پس منظر میں قانون نافذ کرنے والےاداروں بالخصوص ر ینجرز کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے جواب کے طور پر سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کا بچگانہ جارحیت پر مبنی مؤقف ایک دیوار سے لگتے, اپنے انجام سے آگاہ شخص کا ہیجان سے آراستہ اور جذباتی توازن سے محروم ردعمل ہے –
اگرحقیقت پسندی سے غورکیا جائے تو یہ بات قرین از قیاس ثابت ہوتی ہے کہ بے ضابتگی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا ناگزیرحصہ ہےاورمالی کرپشن اس کھلی مارکیٹ کی معیشت کی اس ناقابل تردید اصول کی یاد دہانی ہے کہ ہرچیز قابل فروخت ہے, پچھلےسات,آٹھ سالوں میں کی گئی شدید مالی بدعنوانیوں اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے توانا مافیائی جرائم پیشہ عناصرکے سیاسی گٹھ جوڑ اور کالے دھن کے بالواسطہ یا بلاواسطہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کے باعث پیدا ہونے والی سنگین صورتحال, پولیس اور سول انٹیلیجنس اداروں میں بڑے پیمانے پرموجود سیاسی اثرکےباعث عمومی نا اہلیت جیسے عوامل نے فوج اور سلامتی کے اداروں کواس جان لیوا تکون کے خلاف مکمل فیصلہ کن کریک ڈاؤن کی شروعات پر مجبور کیا – گوکہ اس نکتے کی شفافیت میں کوئی ابہام نہیں کہ طویل مدتی اہداف کی تکمیل کے تناظر میں تمام سول اداروں کی مظبوطی اور ان میں موجود نا اہل عناصر کی بےرحم تلفی ہی بہتری کا واحد راستہ ہے لیکن فوری بہتری اور سطوربالا میں بیان کیے گئے طویل مدتی اقدامات کی ترویج کےلیے ہموار راستہ کی تعمیر جیسے مقاصد کے حصول کی خاطرفوج کی جانب سے اختیار کیے گئے اس صفائی کے عمل کی حمایت ضروری اور وقت کا تقاضہ ہے – سرطان ذدہ خلیوں کے باعث آخری حل کے طور پر جان کے خطرے سے دوچارمریض کو جراحی کے بعد ہی ادویات پر ڈالا جا سکتا ہے اس صورتحال میں بعض سیاسی مبصرین کا عرصے سے جاری نمائشی بھاگ دوڑاور اٹھک بیٹھک پر مبنی فزیوتھراپی پر اصرار جس کو مفاد پرست سیاسی ٹولے نے “قومی مفاہمت” کا نام دے رکھا ہے یقیناً مضحکہ خیزاور آخری تجزیے میں انتہائی افسوسناک ہے-
اخلاقی دیوالیہ پن, سیاسی بدنیتی, مجرمانہ حصہ داری اور خودغرضی سے مزین اس نام نہاد “قومی مفاہمت” کی پالیسی کے کرتا دھرتا پیپلزپارٹی اور اسکے شراکت دار ایم-کیو-ایم, اے-این-پی, جناب عزت ماب مولانا فضل الرحمان اور بعض معملات میں اس اتحاد کے انتہائی قریب موجودہ حکمران جماعت کے تجارتی مفادات کو مدنطر رکھ کر فیصلے کرنے والے اکابرین کا مالی بدعنوانیوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی مخالفت میں صف آرائی کا تاثر اس سوال کا جا مع جواب ہے کہ کیوں سیاستدانوں کے خلاف ایک عمومی ناپسندیدگی اور فوج کےلیے مثبت جذبات کا رجحان عشروں سے پاکستانی معاشرہ کا لازمی جزو رہا ہے- اور یہ کہ کیوں ہمیشہ “جمہوری” حکومت کی رخصتی نے عوام میں کسی خاص ردعمل یا احتجاج کو جنم نہیں دیا – بے شک اس رجحان کی ترویج میں برصغیر کی سماجی رویے اور تاریخی اقدار کا بھی قابل ذکر حد تک عمل دخل ہے کہ جس میں عسکری مشاہیر اور افراد کا مقام غیرعسکری حلقوں سے ہمیشہ بلند اور نجات دہندہ کا رہا ہے – اس تاثر اور تاریخی حقیقت کی کی موجودگی میں سیاسی حلقوں کی ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے افکارواعمال اور رویے کی درستگی اور ان میں موجود کوتاہیوں کے خاتمے کی زیادہ مستحکم پیش بندی کریں اور اس تاثر کو ذائل کرنے کی منسلک اوراجتماعی سر توڑ کوشش کریں پر انتہائی افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ بد قسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آیا – یہ بات نہیں کہ قومی تاریخ میں عسکری اداروں جانب سے کوئی غلطی نہیں ہوئی یا فوج میں انسان نہیں فرشتے ہیں اور ان سے کوتاہی کا ارتکاب بعیدازقیاس ہے لیکن بحثیت ادارہ فوج نے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل مسلسل جاری رکھا – افراد غلطیوں سے نہیں غلطیوں پر اصرار سے برباد ہوتے ہیں- یہی اصول گروہوں پر بھی لاگو ہوتا ہے-
اس پس منطر میں عسکری اداروں کے خلاف پیپلزپارٹی کی جانب سے شروع کی گئی مہم کا حصہ بننے والی سیاسی جماعتوں کو یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کی سیاست کا تو ویسے ہی چل چلاؤ ہے اور انکو اس مہم میں کودنے کے بجائے اپنے اعمال کی درستگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے- کبھی پنجاب, خیبرپختونخواء اورشمالی علاقاجات پر سیاسی راج کرتی پی-پی-پی اپنی پہاڑ جیسی غلطیوں کے بوجھ تلے دب کر اب محض اپنے ماضی کا کھوکھلہ ڈھانچہ بن کر رہ گئی ہے- “چاروں صوبوں کی زنجیر” اب صرف بےنام سندھی قوم پرستی کی اسیر بن کر سندھ کے چند دیہی اضلاع تک محدود ہو کر رہ گئی ہے- لیکن شاید پیپلزپارٹی کی قیادت اب بھی اس خود فریبی میں مبتلا ہے کہ اس کا وجود دیہی سندھ کے کچھ مخصوص علاقوں سے نکل کر “کراچی سے خیبر تک” ایک بار پھر پھیل گیا ہے- کوئی اور نہیں اپنی سیاسی میراث کی دھجییاں پیپلزپارٹی نےاز خود اڑائیں – اپنی شدید مالی وانتظامی بدعنوانیوں پر مبنی آخری دورحکومت میں پیپلزپارٹی کی جانب سے دیے گئے راجا رینٹل, یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک جیسے تحفے قوم کبھی نہیں بھولے گی – یہ مالی کرپشن ,مفادپرستی اور اخلاقی پستی کے وہ چند دانے ہیں جو پوری دیگ کے ذائقے کا انداذہ دینے کی کلی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی صوبائی سطح پر مسلسل جھلک سندھ حکومت کی نا اہلی و بدعنوانی اور وفاقی منطرنامے پر اس کی بازگشت منی لانڈرنگ اور ترک خاتون اول کے گمشدہ ہارکے معاملے میں اب بھی سنی جاسکتی ہے-
بین القوامی سرحدوں پر تغیر پذیر معاملات جیسا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری, پاک-افغان تعلقات کے پس منظر میں پسپا ہوتے نیٹو, سلامتی کے اداروں کی سالوں کی محنت کے بعد حاصل ہوتے تزویراتی ممکنات ,کرزئی کے جانے کے بعد بھارت کا افغانستان میں محدود ہوتا کرداراور اس پر پیچ وتاب کھاتی بھارتی حکومت کہ جسکو اپنی سالوں کی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آرہی ہے, یہ وہ تمام عوامل ہیں جو چیلنجزاور مواقع کی صورت میں پاکستان کے افق پر پچھلے کچھ عرصے میں نمودار ہوئے ہیں پیپلزپارٹی, مسلم لیگز, اے-این-پی ،جے-یو-آیز سمیت بیشتر جماعتیں جو جمودی قوتوں کی آلۂ کار اور موروثیت کا شکار اور اپنے طرزعمل میں کسی بھی تبدیلی سے مکمل انکاری کا رویہ اختیار کیے رہی ہیں ان کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس موجودہ منفی روش پرقائم رہ کروہ ملکی صورتحال میں پیش آتی مشکلات کو حل کرنے اور ممکنات سے مفید نتائج اخذ کرنے سے قاصراورکسی بھی قومی معاملے میں کسی بھی طور کا تعمیری کردار اداکرنے سے قطعی محروم رہیں گی- افراد غلطیوں سے نہیں غلطیوں پر اصرار سے برباد ہوتے ہیں- یہ ہی اصول گروہوں پر بھی لاگو ہوتا ہے چاہے گروہ سیاسی ہوں یا عسکری- بظاہر کروٹ لیتی صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ سندھ میں لپیٹا جاتا کرپٹ عناصر کا دسترخوانمعاشی دہشتگردی میں ملوث دیگر مگرمچھوں کےلیے آخری انتباہ ہے کہ جلد انکی باری بھی آنے والی ہے ۔
I feel throwing up when i see human garbage from PPP. What a shameless pathetic Psychopaths worse than pigs whose belly never fills.
May ALLAH save Pakistan from PPP and MQM monsters that dance to devil’s tune.
Purge them and build Pakistan to the expectation as perceived by Muslim Ummah.
Keep it up my friend.. very good article..