اس زمانہ کی قسم
بیشک آدمی نقصان میں ہے
مگر جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید اور صبر کی وصیت کرتے رہے.
باوجود فرشتوں کے اس اندیشے کے انسان تو قتل و غارت گری کرے گا, انسان کا تخلیق کیا جانا، اسے اشرف المخلوقات کا درجہ ملنا, خدائے بزرگ و برتر کا اسے اپنا نایب مقرر کرنا. یہ سب تزکرہ ہے اسی اانسان کا. اور پھر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہی انسان خسارے میں ہے اور کامیاب وہی ہے جو ایمان لائے، امر بلمعروف ونہی عن المنکر کو اپنا شعار بنائے بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتا رہے، حق بات کا پرچار کرتا رہے اور مصیبت اور پریشانی میں ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتا رہے۔
میں،آپ اور ہم سب بحثیت انسان ایک معاشرتی زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں انسان نے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق خود کو مختلف طبقوں اور گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ کہیں پہ رنگ و نسل کی بنیاد پر، کیہں پہ جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر، کہیں پہ رہن سہن اور رسم و رواج کی بنیاد پر اور کہیں پہ مزہب کی بنیاد پر لیکن ایک تقسیم وہ ہے جو اللہ تبارک و تعالی کہ ہاں ہے اور اسکی بنیاد دلوں کا تقویٰ ہے چناچہ قرآن میں واضح کر دیا:
اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
الحجرات ۴۹:۳۰
اب یہاں دو باتیں غور طلب ہیں ایک یہ کہ انسان خسارے میں ہے اگر وہ ایمان نہیں لاتا، حق کا ساتھ نہیں دیتا، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتا اور ایک دوسرے کو مصیبت میں صبر کی تلقین نہیں کرتا۔ اور دوسری یہ کہ اللہ کہ نزدیک عزت اور بڑائی کا معیار دلوں کا تقویٰ ہےیعنی اللہ سے ڈرتے رہنا۔ لہذہ کامیابی کہ لیئے ان دو اصولوں کو لے کے تحقیق کرتے ہیں.
اللہ تبارک و تعالی نے جب انسان کو حق کی دعوت دینے کا حکم دیا تو اسکے ساتھ ہی اسکی تربیت کا بندوبست بھی فرما دیا, اسکے لیئے ایک ایسی ہستی کو نمونہ کے طور پر پیش کیا جو اعلیٰ ترین اخلاق اور اور بہترین اُسوہ حسنہ کے مالک تھے
۔بیشک رسول اللہ کی زندگی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے
سورہ احزاب۔ ۳۳:۲۱
چناچہ اپنے محبوب کہ محاسن کا تزکرہ یوں فرمایاـ
یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم انکے لیے نرم دل ہوے اور اگر تُند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے پاس سے چھٹ جاتے تو تم انہیں معاف فرماوٗ اور انکی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کر لو اللہ پر بھروسہ کرو بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔
سورہ اٰل عمران ۳:۱۵۹
یہاں سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دعوت حق کہ لیے داعی کو تند مزاجی اور سخت گیری سے کام نہیں لینا چاہیے کیوںکہ جو داعی عظیم ہے اسکا شعار تند مزاجی اور سخت گیری ہر گز نہ تھی۔ اسلام جسکا مطلب سلامتی ہے اسی اصول پہ دعوت حق دیتا ہے ۔ خود رب زولجلال اسی اصول پہ کاربند ہے۔ اچھائی اور برائی سے آگاہی دے دی اور دونوں کے انجام کی نوید بھی سنا دی اس کے بعد فیصلہ انسان پہ چھوڑ دیا کہ وہ اپنے لیے کیا راہ منتخب کرتا ہے۔ آدم کو نصیحت فرما دی کہ اس درخت کے پاس نہ بھٹکنا اور شیطان کی پیروی نہ کرنا بیشک وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے اور پھر اسکے بعد اختیار دے دیا کہ جو چاہو کرو اگر خدا اپنے حکم کی زبردستی تکمیل کراتا تو آدم کی کیا مجال تھی کہ وہ اس درخت کے قریب بھٹکتا۔ پھر شیطان کو پہلے دن ہی کیوں نہ سولی چڑھا دیا، نہ تو شیطان ہوتا اور نہ کوئی انسان خدا کے احکام سے روگردانی کرتا۔ نبیوں کی دعوت کو جھٹلانے والوں کو صفحہء ہستی سے کیوں نہ مٹا دیا۔ ان سب سوالوں کا جواب قرآن اس طرح دیتا ہے۔
اور اگر تمہارا رب چاہتا زمین میں جتنے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں کو زبردستی کروگے یہاں تک کہ مسلمان ہو جائیں۔
سورہ یونس ۱۰:۹۹
چناچہ ثابت ہوا کہ اللہ تبارک و تعالی جبر کے قائل نہیں اور ںصیحت اسی صورت میں اثر انداز ہو سکتی ہے جب حکمت اور دلائل سے بھرپور ھو اور اس پہ عمل کرنے پر مجبور نا کیا جائے کیوںکہ ایمان میں زبردستی نہیں ہو سکتی. ایمان تو ہوتا ہے تصدیق و اقرار سے اور جبر و اکراہ سے تصدیق قلبی حاصل نہیں ہوتی۔
اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقے پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔ بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اسکی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو۔
سورہ النخل ۱۶:۱۲۵
آج کا انسان ہر لحا ظ سے شدت پسندی میں مبتلا ہے۔ ںاصح بھی شدت پسند ہیں اور منصوح بھی شدت پسند ہے۔ ناصح نصیحت پر ہر حال عمل چاہتا ہے اور عمل نہ کرنے پر فتوؤں پہ اُتر آتا ہے کچھ تو اس پہ ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ خود ہی نا فرمان کو واصل جہنم کرنے کی زمہ داری اٹھا لیتے ہیں. جبکہ منصوح کسی قسم کی نصیحت پہ عمل کی پابندی سے عاجز ہے۔ آج انسان کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ کچھ بھی اپنی مرضی کے خلاف ہوتا ہوا برداشت نہیں کر سکتا، وہ اپنے متعلق خوش گمانی اور دوسروں کے متعلق بدگمانی کو ہی اپنی معراج مانے ہوے ہے۔ آج کا انسان دوسروں کے لئے بہترین ناقد ہے اور اپنا بہترین وکیل کیونکہ اپنے اندر اُسے کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ آج کے انسان نے زبان میں بہت ترقی کر لی ہےوہ اپنی تقریر و تحریر کی مدد سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو با آسانی سچ ثابت کر سکتا ہے۔ چاہے اس عمل میں کسی اس جیسے دوسرے انسان کی دل آزاری ہی کیوں نا ہو رہی ہو۔
معاشرے کی تقسیم اور انسانی المیہ دیکھئے کہ انسان نے ہی انسان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے صرف اس لیے کہ وہ دوسروں کو باور کرا سکے کہ صرف وہ جو سوچتا ہے وہی دُرست ہے۔ ہر طبقہ اپنی بات زبردستی منوانے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے۔ آج کے انسان کو اپنے نفس کی تسکین کے لئے کسی دوسرے کی ہر زہ سرائی بلکل بھی مانع نہیں۔ مسلمان وہ ہے جو شریعت کے نفاز کے لئے کوشاں ہے اور وہ بھی خود کو مسلمان ہی کہتے ہیں جو شریعت کے نفاذ کیلئے اسکے ماننے والوں ہی کو قتل کر رہے ہیں۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جو لوگوں میں نیک نامی کے لئے اور انکا اعتماد حاصل کرنے کے لئے اسلام کے بتائے ھوئے طرز عمل کو اپنائے ہوئے ہے اور ایک وہ ہے جو اس سے صرف اس لیے دور ہے کہ کوئی اسے شدت پسند، دقیانوسی یا تنگ نظر نہ سمجھے۔
قرآن کا مخاطب کہیں انسان ہے (یا ایھا الناس) اور کہیں ایمان والا مسلمان (یا ایھاالذین اٰمنو)۔ قرآن انسان کو ایمان والا کہہ کر ایک درجہ بلندی عطا فرماتا ہے۔ اسکو شیطان کی پیروی سے بچنے کی تلقین فرماتا اور دائرہء اسلام میں پورا کا پورا داخل ہونے کی ہدائت کرتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مسلمان وہ ہے جسکے زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چوڑ دے جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایا۔(بخاری)
اور اسلام تو ہے ہی سرا سر بھلائی اور امن و سلامتی۔ جو کوئے دائرہٗ اسلام میں داخل ہوا وہ ہمیشہ کہ لیے امن اور سلامتی میں آ گیا اب اگر کوئی بھی سخص مسلمانوں کو ایذا پہنچائے تو وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ یہ ایذا پہنچانا صرف جسمانی لحاظ سے نہیں بلکہ کسی کی دل آزاری کرنا بھی اسی ضمرے میں آتا ہے۔ لہٰذہ بحثیت انسان اور مسلمان ایک انسان کی جان مال عزت و آبرہ دوسرے مسلمان کہ لیئے حرمت کا درجہ رکھتی ہے۔ قرآن و حدیث میں انسان کو اجتماعیت، حسن معاشرت اور حسن اخلاق کا درس دیا گیا۔ عظمت انسانئت قرآن کا اہم موضوع ہے۔ اور انسانوں کو بھی احترام انسانیت کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تبارک و
تعالی نے انسان کو جو معراج دی ہے وہ احترام انسانیت کا تقاضہ کرتی ہے۔
اور بیشک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور انکو خشکی اور تری میں سوار کیا اور انکو ستھری چیزیں روزی دیں اور انکو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا
بنی اسرئیل ۱۷:۷۰
۔ آج انسان اپنی معراج کو بھول چکا ہے۔ اور اسکا سب سے بڑا سبب قرآن پر غور نہ کرنا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
انسان جب داعی کے منصب پر فائز ہوتا ہے تو ضروری ہے کے سب سے پہلے انفرادی تربیت پر توجہ دی جائے۔ اللہ تبارک و تعالی نے حسن خلق اور حسن معاشرت کی ترغیب دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد فرمایا۔
اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو۔ بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں سے کوئی پسند کرےگا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارہ نا ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
الحجرات ۴۹:۱۲
اچھا گمان انسان کے اخلاق میں بہتری لاتا ہے اور معاشرے میں محبت ، بھائی چارے اور خلوص کا ضامن ہے جبکے بدگمانی انتشار اور نفرت کو فرغ دیتی ہے۔ اور اجتماعیت جو کہ معاشرے کا حسن ہے اسےبری طرح متاثر کرتی ہے۔ اور آجکل یہ مرض عام پایا جاتا ہے جس سے معاشرے کا کوئی بھی طبقہ بچ نہیں پایا۔
ایک مرتبہ آنحضور کے سامنے کسی شخص کا ذکر آیا تو بعض لوگوں نے جو واقفیت رکھنے والے تھے ان کے بارے میں کہا کہ وہ تو بڑے گناہوں میں مُبتلا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اُسکو اللہ اور اسکے رسول سے محبت ہے
بڑے گناہوں کے پائے جانے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی ایک نیکی کا ذکر فرمایا۔ اور یہ سبق دیا کہ مجلسوں میں اس طرح کسی کا ذکر آئے تو ذکر خیر ہی بہتر ہے۔ کیونکہ بعض مرتبہ ایک نیکی بھی اللہ کی بارگاہ میں ایسی قبول ہوتی ہے کہ انسان کے بڑے بڑے گناھوں کو ڈھانپ لیتی ھے۔ لہٰذہ اسلام کا منشاء برائی کو اُبھارنا نہیں بلکے اُسے دبانا ہے۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالی قیامت کے دن اسکی پردہ پوشی کریں گے۔
قرآن کی تعلیمات خالص احترام انسانیت پہ مبنی ہیں۔ وہ تمام معاشرتی بیماریاں جنکا آج ہم شکار ہیں قرآن ہمیں ان سے خبردار کرتا ہے۔ قرآن میں منع کیا گیا کہ ایک دوسرے کی عیب جوئی میں نہ لگے رہا کرو۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (وِؔلا تـجـسسوُ) اور یہ بھی کہ ھمیشہ حق بات کہو اور کسی گروہ کی دشمنی تمہیں حق بات کہنے سے نہ روکے اور یہ بھی جب کوئی فاسق شخص کوئی خبر دے تو اسکی تحقیق کر لو۔ جبکہ آج سب کچھ اسکے بر عکس ہے۔ کوئی خبر ملنے کی دیر ہے بھلے جھوٹی ہی کیوں نہ ہو نہائیت انہماک کے ساتھ فخریہ آگے منتقل کر دی جاتی ہے۔ غضب تو اس بات کا ہے کہ بعض اوقات وہ خبر کسی دوسرے کی دنیا اور خبر پھیلانے والے کی عاقبت برباد کر دیتی ہے لیکن پھر بھی لوگ محض مزاق میں اُڑا دیتے ہیں اور یہ سب زمانہٗ جاہلیت کے طور طریقے تھے اور قرآن نے انہیں نا پسند فرمایا اور اپنے ماننے والوں کی تربیت ان الفاظ میں فرما دی۔
اے ایمان والو نہ مرد مردوں پہ ہنسیں۔ عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نا عورتیں عورتوں سے۔ دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیٗوں سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔ کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا۔ اور جو توبہ نہ کریں تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
الحجرات ۴۹:۱۱
اللہ تبارک و تعالی نے بھلائی کا حکم دینے والوں کو مخالفین کے رویئے سے دل برداشتہ ہو کے دعوت حق کو ترک کرنے کے بجائے جاہلوں سے اعراض کی ترغیب دی ہے۔ غرضیکہ ہر مقام اور ہر لحاظ سے حسنِ خُلق اور بہترین تدبیر اور طریقے سے ان مشکلات پہ قابو پانے کا حکم دیا۔ چناچہ ارشاد فرمایا۔
اے محبوب عفو و درگزر سے کام لو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔
الاعراف۔ ۷:۱۹۹
نادان افراد سے روگردانی کا حکم دیا, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں معاف فرمانے کا کہا اور انہیں بھلائی کا حکم دینے کی تلقین کی اور انکی جہالت کا جواب حلم اور برد باری کے ساتھ دینے کا مشورہ دیا۔ اور یہ سب اس امکان کے پیش نظر کہا کہ عجب نہیں کہ وہ راہ ھدایت پا لیں کیوںکہ بہترین اخلاق سے ہی دلوں کہ جیتا جا سکتا ہے۔ اور وہ جسکی اصلاح مقصود ہو راہ راست پہ آسکتا ہے بیشک اللہ ہی دلوں کو پھیرنے والا ہے اور ھدائیت ساری اُسی کی طرف سے ہے۔
شائد اب وقت آگیا ہے کہ ھم سب قرآن کے بتائے ہوے طریقوں اور اسوہ رسول پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک بہترین معاشرے کی بنیاد رکھیں کیونکہ ہمارا معاشرہ آج جن فتنوں سے دوچار ہے اور جن مشکلات کا شکار ہے اُن سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ہمیں صرف اور صرف اسلام دکھاتا ہے کیوںکہ اسلام صرف ایک مذھب نہیں بلکے مکمل ضابطہٗ حیات کا نام ہے۔ وہ ضابطہٗ حیات جسکی بنیاد محبوب رب کائنات نے رکھی اور خود اس پر عمل کر کے دکھایا اور جو انسانیت کی بھلائی کا راز اور انسان کی معراج ہے۔
میں اس مضمون کا اختتام حضرت لقمان کی نصیحت سے کروں گی جو کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی. اس نصیحت کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، بلاشبہ یہ ںصیحت ہم سب کے لئے ھدایئت کا مینارہ ہے۔ اللہ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اے میرے بیٹے نماز قائم کر اور نیک بات کا حکم دے اور برائ سے منع کر اور جو مصیبت تجھ پر آئے اس پر صبر کر بیشک یہ بہت عزم و ہمت کے کام ہیں اور کسی سے بات کرنے میں اپنے کندھے جھکا کے رکھ اور زمین میں اتراتا نا چل بیشک اللہ کو شیخی خورے اور بڑائ جتانے والے پسند نہیں اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر بیشک ساری آوازوں میں بُری آواز گدھے کی آواز ہے.
سورہ لقمان ۳۱: ۱۷تا۱۹