کشمیر میں جاری جد وجہدِ آزادی کی تحریکوں کو قیام پاکستان سے قبل کی تحریک آزادی سے مشابہت حاصل ہونا فطری بات ہے۔ 1980 کی دہائی میں اِن تحریکوں میں مسلح جد وجہد کا عنصر بھی شدت اختیار کر گیا، جس پر بھارتی مظالم کی مزید سنگین داستانیں رقم ہوئیں۔
دس منٹ سے دسترخوان پر بیٹھے زاہد نے کھانے کی طرف دیکھا بھی نہ تھا۔ اُس کی نگاہ ایک جگہ منجمد، اور چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا۔ کئی ماہ بعد گھر واپسی پراُس کی ماں نے کافی اہتمام کر رکھا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں خیریت اور سفر کے بارے میں دریافت کرتے بھائیوں اور والد کو بھی زاہد سے کوئی جواب نہیں حاصل ہو رہا تھا۔ “بیٹا کچھ کھانا تو شروع کرو، روٹی ٹھنڈی ہو رہی ہے۔” اس کی ماں کا نہایت فکر والفت سے یہ کہنا تھا کہ زاہد کی آنکھوں سے آنسؤوں کے آبشار امڈ آئے۔ پھر جیسے ایک ہی سانس میں دھاڑیں مارتی آواز کے ساتھ وہ نہ جانے کیا کچھ نہ کہہ گیا۔ “گھر جلا دیا، ٹانگیں توڑ دیں، عصمتیں لُٹیں، بچے یتیم ہوئے، تو ضعیف شخص کو گھر کے بستر پر گولیوں سے چھلنی۔۔۔” وہ بولتا رہا اور روتا رہا، ہر جملے کے ساتھ اُس کی کلیجا کاٹتی داستان کے ساتھ اُس کی سسکیاں لپٹی ہوئی تھیں۔ جب اُس کا دامن بھیگ کر تر اور وہ خود نیم بے ہوشی کی سی حالت کو پہنچا تو زاہد کا چھوٹا بھائی اُسے کمرے میں لے گیا۔
صرف زاہد ہی نہیں! UN Observers, Amnesty International, Human Right Groups سمیت تمام زبانوں میں بولنے اور لکھنے والا میڈیا بھارتی ظلم وجبر کی اِن داستانوں کا شاھد ہے۔ صرف پچھلے 20 سالوں میں درجنوں ایسی قبریں دریافت ہوئی ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کو دفنایا گیا ہے۔ عالمی تنظیموں کو جب اِن خفیہ قبروں کا ادراک ہوا تو بھارتی حکومت نے یہ موقف اپنایا کہ یہ وہ جنگجو ہیں جو سرحد پار پاکستان سے آئے اور ہمارے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ DNA جانچ سے جب یہ سراغ لگا لیا گیا کہ دفنائے گئے تمام لوگ مقبوضہ کشمیر کے عام رہائشی ہیں تو نئی دہلی نے الزام عائد کیا کہ یہ ضرور پاکستان سے آئے جاسوسوں کی کاروائی ہو گی۔ کشمیر میں کئے گئے بھارتی ظلم اور اُس پر درج ہونے والی مذمت کے ردِ عمل کے طور پر اختیار کی گئی مکاری اور جھوٹ سے عالمی برادری خوب واقف ہے۔
مقبوضہ کشمیر 39000 مربع میل پر پھیلا مسلم اکثریت کا حامل وہ علاقہ ہے جو برِ صغیر پاک وہند سے انگریزوں کے اخراج کے بعد سے بھارتی فوج کشی اور غضب کا شکار ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت جو فارمولا طے پایا تھا اُس کے مطابق مسلم آبادی والے علاقے پاکستان اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کئے جانے تھے۔ اسی فارمولے کے تحت بنگال اور پنجاب کے بھی دو ٹکڑے کئے گئے۔ Independence of India Act 1947 کے مطابق البتہ ریاستوں کے نوابوں اور مہاراجاؤں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی ملک کے ساتھ اپنی ریاست کا الحاق کر لیں۔ مسلم اکثریت کے باوجود جب جموں وکشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت میں شمولیت کی ٹھان لی تو اِس بات کا علم ہوتے ہی نہ صرف کشمیر بلکہ اُس سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں بھی بے چینی پائی جانے لگی۔ آخرکار مہاراجہ کو اُس کے عزائم میں ناکام کرنے کے لئے خطے کے پرعزم حریت پسند لوگوں نے وادی کا رخ کیا۔ اور یوں باضابطہ 25 اکتوبر سنہ 47ء کو ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا، جس پر بھارت کی جانب سے فوراً فوج کشی شروع کر دی گئی۔ پاکستان کی مداخلت سے معاملہ پوری وادی پر ہندوستانی قبضہ کی صورت میں تبدیل نہ ہو پایا۔
دونوں ملکوں کے درمیان اقوامِ متحدہ کی قرارداد، جو اپریل سنہ 1948ء میں منظور ہوئی، نہ صرف جنگ بندی کا سبب بنی، بلکہ اسی قرارداد کے بموجب کشمیری عوام کو حقِ رائے شماری بھی دیا گیا، جس کے تحت وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ خود کرنے کے حقدار قرار پائے۔ اسی قرارداد کی راہ میں بھارت نے شروع دن سے رکاوٹیں کھڑی کیں، جبکہ اِس پر عملداری کو یقینی بنایا جانا پاکستان کی کشمیر پالیسی کی کل اساس ہے۔ یاد رہے کہ جنگ بندی کے وقت جو علاقہ بھارتی افواج کے کنٹرول میں تھا وہ مقبوضہ اور پاکستانی افواج کے کنٹرول میں موجود علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی کل آبادی کا 80 فیصد مسلم جبکہ 25000 مربع میل پر مبنی آزاد کشمیر کی کل آبادی مسلمان ہے۔
آزاد کشمیر میں رہنے والے لوگوں اور مقبوضہ کشمیر کی عوام کے حالات میں نمایاں فرق کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 1947ء سے آج تک بھارتی قبضہ میں موجود علاقے کو متعدد تحاریک، احتجاجوں اور آزادی کی مستقل جد وجہد میں ہی دیکھا گیا۔ اِس کی وجہ بھارت کی جانب سے لگایا جانے والا Public Safety Act قانون ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی قانونی کاروائی کے حراست میں غیر معینہ مدت کے لئے رکھا جا سکتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو اِس طرح پہلے جیلوں میں قید اور پھر گمشدہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ ہر بار دہلی کا ایک نیا جھوٹا موقف عالمی برادری کی جانب سے کی جانے والی مذمت کو رد کر دیتا ہے۔ نہ صرف وادی کی عوام پر ظلم وجبر بلکہ موقع موقع سے بھارت نے LoC کی دوسری جانب شورش برپا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں، جس وجہ سے عموماً یہ جھڑپیں خبروں کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ آخری بار بارڈر پر جاری جھڑپوں کو سنہ 2003ء کی جنگ بندی کے معاہدے سے امن بخشا گیا، لیکن ایک بار پھر دونوں اطراف سے جانی نقصان کی اطلاع رواں سال میں کئی بار سُننے کو ملی۔
کشمیر میں جاری جد وجہدِ آزادی کی تحریکوں کو قیام پاکستان سے قبل کی تحریک آزادی سے مشابہت حاصل ہونا فطری بات ہے۔ 1980 کی دہائی میں اِن تحریکوں میں مسلح جد وجہد کا عنصر بھی شدت اختیار کر گیا، جس پر بھارتی مظالم کی مزید سنگین داستانیں رقم ہوئیں۔ آج بھی ایسے واقعات وادی کے لوگوں میں بھارتی حکومت کے خلاف شدید نفرت پیدا کرتے ہیں۔ سنہ 2009ء میں جب 17 اور 22 سالہ لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا اور بھارتی فوجیوں کی یہ وحشیانہ کاروائی وادی کے لوگوں کے علم میں آئی۔۔ تو مقبوضہ کشمیر کے کونے کونے میں کہرام مچ گیا تھا۔ اُن معصوموں کی خطا صرف ایک فوجی چوکی کے پاس سے گزر جانا تھی۔
کچھ ہی عرصے بعد بھارتی فوج نے سرحد پار سے آنے والے 3 جنگجؤوں کی ہلاکت کی اطلاع عام کی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ نہ صرف وہ 3 مقامی افراد بلکہ بے گناہ شہری تھے، جنہیں مزدوری کا جھانسہ دے کرفوجی کیمپ میں لے جایا گیا اور سفاکی سے سروں میں گولی مار دی گئی۔ اِس کے نتیجے میں سری نگر سمیت تمام مقبوضہ کشمیر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ اسی اثنا میں 17 سالہ طفیل جاں بحق ہوا تو وادی بھر کی عوام سڑک پر آ گئی جن پر بھارتی افواج نے مزید ظلم ڈھائے۔ آج مقبوضہ کشمیر ہر سات افراد پر ایک فوجی کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ علاقہ ہے۔ جہاں ایک اندازے کے مطابق 7 لاکھ سے 10 لاکھ بھارتی فوجی مقیم ہیں۔
اِس جدید دور میں کیمرے کی آنکھ، صحافیوں کے قلم اور بین الاقوامی رپورٹر یہ ہولناک داستانیں اقوامِ عالم کو بارہا دکھا اور سنا چکے ہیں۔ اِس کے باوجود انڈونیشیا، عراق، افغانستان، سوڈان، صومالیہ اور اب سوریہ کے غم میں بظاہر نڈھال اقوامِ عالم کشمیر کے موضوع پر خاموش پائی جاتی ہیں۔ ہر برے وقت میں کشمیر کے ساتھ کھڑے پاکستان کی افواج اور عوام آج بھی مقبوضہ کشمیر کی عوام کے لئے مستقبل قریب میں آزادی کی امید سے کم نہیں۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ نئی نسل اپنے بزرگوں کی قربانی اور کشمیر کے غم سے ناآشنا ہو جائے۔
تھوڑی دیر میں زاہد کو کمرے سے باہر آتا دیکھ کر اُس کے آرمی ریٹائرڈ والد نے قدرے سخت لہجے میں کہا: “دنیا ظلم وجبر کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور تم کشمیر سے لوٹ کر عورتوں کی طرح روتے ہو؟”
ممتا سے مجبور ماں زاہد کے دفاع میں اتنا کہتی ہے: “جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے!”