گذشتہ دنوں بھارت کے وزیرِاعظم من موہن سنگھ کشمیر کے دورے پر آئے، ان کی آمد سے ٹھیک ایک دن پہلے حزب المجاہدین کے دو فدائیوں نے سرینگر شہر میں دن دہاڑے ہائی سیکورٹی الرٹ کے باوجود 55 راشٹریہ رائفلز کے فوجی قافلے پر حملہ کرکے چھٹی مکمل ہونے پر واپس نوکری پہ جانے والے 9 فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور 19 کو گھائل کرکے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس واقعہ کے باوجود من موہن سنگھ نے کشمیر کےدورے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس دورے کے دوران سرینگر شہر میں تقریباً ہر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ناکے لگا دئے گئے، جگہ جگہ تلاشی اور کاغذات کی تصدیق ہوتی رہی، اور غیر اعلانیہ مدت کے لئے کرفیو کی سی کیفیت بنی رہی۔ حریت پسندوں نے اس موقع پر احتجاجاً ہڑتال کا اعلان کیا۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر کشمیریوں کو من موہن سنگھ کے اس دورے کی وجہ سے 600 کروڑ روپے کا مالی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ دوسری جانب من موہن سنگھ، جن کے 9 سال قبل اعلان کردہ پیکج کی راہیں تکتے تکتے کشمیریوں کی آنکھیں پتھرا چکی تھیں، ایک اور پیکج کا اعلان کرکے چلتے بنے۔
بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کی آمد پر حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں سمیت جے کے ایل ایف نے بھی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس موقع پرحریت کانفرنس (گ) کے چئیرمین سید علی گیلانی کا کہنا تھا کہ کسی پیکج کے اعلان، ریلوے لائن یا بجلی کے منصوبوں کے افتتاح سے کشمیریوں کے زخموں کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ جبکہ حریت کانفرنس کے معتدل دھڑے کے سربراہ میرواعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ کشمیر کا اصل مسئلہ معاشی نہیں سیاسی ہے، جس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہئے۔ جبکہ جے کے ایل ایف کے سربراہ یاسین ملک کا کہنا تھا کہ وزیراعظم من موہن سنگھ کا امن کا منصوبہ ناکام اور محض ایک دھوکہ ثابت ہوا ہے۔
بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ جس وقت دنیا میں کسی نے ’عرب سپرنگ‘ کا نام بھی نہیں سنا تھا، اس سے بہت پہلے سنہ2008ء اور پھر سنہ2010ء میں 5 لاکھ سے زائد کشمیری پُرامن طریقے سے سڑکوں پر بھارت سے آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے نکلے تھے، اور ایسے بے مثال مظاہرے کئے تھے کہ کشمیر کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس پوری تحریک کے دوران کوئی ایک بھی بھارتی سیکورٹی اہلکار ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا، لیکن اس کے برعکس بھارت کی سرکار نے اس کا جواب کرفیو نافذ کرکے، انٹرنیٹ پر پابندیاں لگا کر اور 170 نہتے نوجوان طالبعلموں اور بچوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کرکے دیا تھا۔
24 جون سنہ2013ء کو سرینگر شہر میں ہوئے حملے کے بعد بھارت کے مشہور صحافی پروین سوامی نے اپنی ایک تحقیق میں گذشتہ 13 سال میں کشمیر میں جاری مسلح کشمکش کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی ایک وقت میں سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکتیں، حریت پسندوں کی شہادتوں سے بڑھ گئی ہوں۔ سنہ2013ء میں اب تک 31 سیکورٹی اہلکار ہلاک اور 17 حریت پسند شہید ہوچکے ہیں۔ یہاں ایک اور اہم بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کشمیر میں پہلی دفعہ ایک نئی چیز دیکھنے میں آئی ہے، اور وہ ہے نوجوانوں اور پڑھے لکھے طبقے کا عسکریت پسندی کی طرف مائل ہونا۔ سیکورٹی اہلکاروں کا ماننا ہے کہ گذشتہ چار سال میں 16 کے قریب ایسے کشمیری نوجوان شہید کئے گئے جو کسی نہ کسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ سرینگر کی کشمیر یونیورسٹی کے شعبہء پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر نوراحمد بابا، جو سنہ1990ء کی مسلح تحریک کے آغاز کے وقت جوان تھے، کا کہنا ہے کہ مسلح کشمکش کا یہ چہرہ بالکل نیا ہے۔ ’’اس وقت یہ بڑے پیمانے پر تحریک تھی، ہر ایک نے گن (gun) اٹھائی تھی غصہ اور جوش میں مغلوب ہو کر، یہ سوچے بغیر کہ اس کا کیا مطلب ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ لیکن موجودہ لہر اس سے کہیں زیادہ سمجھ دار اور پیشہ وارانہ ہے اور یہ پہلے سے کہیں زیادہ مختلف ثابت ہوگی۔‘‘
بھارتی افواج کی طرف سے بربریت کا تازہ ترین مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب رات کے 3 بجے بھارتی فوجیوں کی ایک ٹولی ایک گاڑی پر سوار ہو کر ضلع بانڈی پورہ کے علاقے مرکنٹل گلشن پورہ میں پہنچے۔ گاڑی کا رجسٹریشن نمبر JK05A9915 تھا۔ اس علاقے میں اس سے پہلے رات کو مال مویشیوں کی چوری کی کافی وارداتیں ہوئی تھیں، جس کی وجہ سے شور کی آواز سن کر عرفان احمد گنائی گھر سے باہر نکلا، لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اب وہ اپنے قدموں پر چل کر گھر واپس نہیں جا سکے گا۔ باہر کھڑی فوجیوں کی ٹولی نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے شہید کر دیا۔ عرفان کے والد غلام نبی گنائی نے بتایا کہ فوجیوں نے ان کے بیٹے کو مارنے کے بعد لوگوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے کی دھمکیاں دیں اور گالیاں بکیں۔ لیکن صبح ہوتے ہی جب عوام نے اس ظلم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ شروع کیا تو بھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے ارشاد احمد نام کا ایک اور کشمیری شہید ہوگیا، جب کہ 5 دیگر افراد زخمی ہوگئے۔ آخری خبریں آنے تک علاقے میں صورتحال کشیدہ ہے اور عوام میں اس واقعے کے خلاف شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔
ضلع بانڈی پورہ میں ہوا تازہ ترین واقعہ کشمیریوں کی جدوجہد کا ایک نیا موڑ بن کر سامنے آسکتا ہے۔ نوجوان اور پڑھے لکھے کشمیری جنھوں نےکریک ڈاون میں آنکھیں کھولی ہیں، جو گھر گھر تلاشیاں سہتے ہوئے جوان ہوئے ہیں، جن کی آنکھوں کے سامنے حریت پسندوں کو ہتھیار اُٹھانے کے جرم میں شہید کیا جاتا رہا ہے، جنہوں نے سنہ2008ء اور سنہ2010ء میں انتہائی پرامن طریقے کو اپنا کر بھی اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، ان نوجوانوں کا اپنی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد دوبارہ گن (gun) کی طرف مائل ہونا بھارت کے لئے انتہائی خطرے کی علامت ہے۔ گذشتہ دس سالوں میں بھارت نے نوجوانوں کو راغب کرنے، ان کو نوکریاں دینے سے لے کر سکالرشپ پر پڑھنے تک کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہے مگر نتیجہ صفر کا صفر ہے۔ کیونکہ کشمیری عوام کا اصل مسئلہ حقِ خودارادیت کا حصول ہے جس کے لئے وہ گذشتہ نصف صدی سے زائد سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کا انخلاء اس بات کی دلیل ہے کہ غاصب قوت چاہے سُپر پاور ہی کیوں نہ ہو، ایک نہ ایک دن اسے بالآخر مقبوضہ علاقوں کو خیرآباد کہنا ہی پڑتا ہے۔ اگر بھارتی حکومت نے اصل مسئلے کی طرف توجہ نہ کی تو آنے والے سال نہ صرف خونی ثابت ہوں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ بھارت میں چھپنے والے نقشوں میں ترمیم کرکے چھاپنا پڑے۔