کشمیر میں ابھی 13 جولائی 1931 کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ تھمنے نہ پایا تھا کہ بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کے ظالم اہلکاروں نے جموں کے ضلع رام بن کے علاقے گُول میں پہلے ایک مدرسے میں گھس کر قرآن مجید کے مقدس اوراق کی بےحرمتی کی، اس کے فورا بعد اس واقعے کے خلاف سراپا احتجاج نہتے اور معصوم لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر کے8 لوگوں کو شہید اور 42 کو زخمی کردیا۔ اس واقعے کی خبر مقبوضہ جموں و کشمیر کے طول و عرض میں آگ کی طرح پھیل گئی- جگہ جگہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور سراپا احتجاج بن گئے۔ انٹرنیٹ کی سہولت کو بند کر دیا گیا اور موبائل کی سروس کو بھی چند گھنٹوں کے لئے معطل کر دیا گیا تاکہ خبر پھیل نہ سکے۔ دنیا کی بدترین جمہوریت بھارت نے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے والے کشمیریوں کو جس طرح دن دیہاڑے ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا اس کی نظیر نہیں ملتی.
جولائی 2013 کی رات 9:30 ضلع رام بن کے گاوں دھرم (جو کہ سرینگر سے 150 کلومیٹر دور واقع ہے) میں BSF کے چار مسلح جوان مقامی مدرسے کے پاس پہنچے اور مدرسےکے مہتمم افضل لطیف سے پوچھ گچھ شروع کردی، پوچھ گچھ کے دوران دو جوان مدرسے کے باہر کھڑے رہے جبکہ دو افضل لطیف کے ہمراہ ان کے دفتر میں داخل ہوئے۔ ان دونوں اہلکاروں نے غصہ میں چیخنا چلانا شروع کردیا اور کہا تم عسکریت پسندوں کو پناہ دیتے ہو، افضل نے ان الزامات کی نفی کی ۔ اس دوران انھوں نے دفتر کی تلاشی لی، اور الماری میں رکھا قرآن مجید نکال کر اس کی بیحرمتی کرنا شروع کردی۔ پہلے قرآن مجید کو ٹکڑے ٹکڑے کیا پھر ان ٹکڑوں کو دفتر کے فرش پر پھینک دیا پھر اس پر بھی بس نہ کہ اور ان کو اپنے ناپاک جوتوں سے مسلنا شروع کردیا۔جب افضل نے اس پر احتجاج کیا تو اس کو گریبان سے پکڑ کر تھپڑوں اور لاتوں سے مارتے ہوئے باہر سڑک پر لے آئے ۔ پاس سے گزرتے ہوئے ایک ٹیکسی والے نے یہ منظر دیکھ کر ٹیکسی روکی تو وہ اہلکار اس کے پیچھے دوڑے ۔ اس دوران افضل لطیف کو موقع ملا اور اس نے پولیس کو فون کرڈالا۔پولیس خود تو موقع پر نہ پہنچ سکی مگر مدرسے سے 100 میٹر کی دوری پر واقع ریلوے کے ایک زیر تعمیر پراجیکٹ پر سے انجینئرز، مزدوروں کو موقع پر جانے کا کہا، چند ہی منٹوں پر جب یہ لوگ مدرسہ کے باہر پہنچے تو اُنھوں نے BSF کے اہلکاروں کو فائر کرنے سے منع کیا اور بحث و تکرار شروع کردی جس پر وہ چاروں اہلکار واپس پلٹ گئے۔
اس واقعے کی خبر گُول کے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جس نے قرآن کی بیحرمتی کا سنا وہ بے اختیار مدرسہ کی جانب چلا آیا اور قرآن مجید کے مقدس اوراق کا حشر دیکھ کر خون کے آنسو روتا، چند گھنٹوں کے اندر اس چھوٹے سے علاقے میں 500 کے قریب مرد اور خواتین جمع ہوگئے۔ ہر آنکھ نم تھی، ہر دل بے قرار تھا، ہر ایک بے چین تھا .
لوگ آہ و بکا کرتے اور نعرے لگاتے رہے۔ قرآن کے شہید اوراق کو دیکھ کر اپنے آپ کو ندامت کرتے نظر آتے تھے۔ ان جمع ہونے والے مرد و خواتین کو سحری کے لئے اپنے گھروں کو جانے کے لئے کہا گیا، مگر سب کی بھوک مر چکی تھی، تھوڑی ہی دیر میں تمام لوگ واپس مدرسے کے پاس جمع ہونا شروع ہوگئے۔ صبح ہوتے ہی یہ تعداد بڑھتی چلی گئی، جس نے سنا اس کا دل تڑپ اٹھا اور وہ بے اختیار مدرسہ کی طرف چلا آیا۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے رام بن ضلع کے ڈپٹی کمشنر شیام ونود مینا نے مظاہرین کو مذاکرات کی دعوت دی، علاقے کے عمائدین کا دس رکنی وفد ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کرنے گیا اور اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کو فوری سزا دینے کا مطالبہ کیا، مگر ڈپٹی کمشنر لیت و لعل سے کام لیتا رہا، اس دوران مظاہرین نے پرامن طریقے سے مدرسے سے BSF کے کیمپ کی طرف احتجاجی مارچ شروع کیا ، جب ڈپٹی کمشنر کو اس بات کی اطلاع ملی تو وہ مذاکرات کو چھوڑ کر مظاہرین کے پاس جا پہنچا۔ مظاہرین فوری اقدامات کا مطالبہ کررہے تھے مگر ڈپٹی کمشنر نے عید الفطر کے بعد کاروائی کا کہا جس پر مظاہرین اشتعال میں آگئے اور شدید نعرے بازی شروع کردی۔ تھوڑی دیر بعد مجمع نے BSF کے کیمپ پر سنگ بازی شروع کردی۔ ڈپٹی کمشنر شیام ونود نے BSF کو مظاہرین پر فائر کھولنے کا حکم دیا اور پولیس اہلکاروں نے بغیر خبردار کئے مظاہرین پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں 8 مظاہرین موقع پر شہید جبکہ 42 شدید زخمی ہوگئے۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے ۔ BSF کے اہلکاروں نے اس پر بس نہ کی اور شہید ہونے والوں کی لاشوں کو اور زخمی تڑپتے، خون میں لت پت لوگوں کو کیمپ کے سامنے ایک جگہ ڈھیر کر کے مظاہرین کو للکارتے رہے۔
قرآ ن کی بیحرمتی کے واقعے کے فورا بعد اس قتلِ عام پر پورے جموں و کشمیر میں غم و غصے کی کیفیت نے جنم لیا، حریت کانفرنس کے رہنماوں نے 3 روزہ ہڑتال کی کال دی، متحدہ جہاد کونسل نے ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا اور اس واقعے کو13 جولائی 1931 کے واقعے سے تشبیہ دی۔ بھارت کی غاصب حکومت نے صورتحال سے نمٹنے کے لئے مقبوضہ وادی کشمیر کے تمام علاقوں میں کرفیو کا اعلان کیا لیکن اس سب کے باوجود کشمیری عوام جمعہ کی نماز کے بعد سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلی ۔ جگہ جگہ بھارتی سیکورٹی اہلکاروں پر سنگ بازی کے واقعات پیش آئے ، اور مختلف واقعات میں 40 سے ذائد کشمیری کرفیو کے دوران احتجاجی مظاہرو ں میں شدید زخمی ہوئے ہیں۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال اور اس پر بھارتی ردعمل نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ آج بھی مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام پر بھارت سرکار بندوق کے زور پر قابض ہے۔ 2008 اور 2010 کے پرامن مظاہرین کو اشتعال دلانے میں بھی بھارت کی سرکار کا مغرورانہ رویہ کارفرما تھا اور اب بھی یہی رویہ ہے کہ جس نے کشمیریوں کی اکثریت کو ایک بار پھر بھارت سے مایوس کردیا ہے۔ احتجاج کی موجودہ لہر فوری طور پر ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی، اور معاملہ طول پکڑتا دکھائی دے رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ بھارت سرکار نے ابھی تک اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں اور محض چند سرپھرے نوجوانوں کا وقتی ابال سمجھ کر ٹالے جارہی ہے لیکن بہت جلد یہ غیر سنجیدگی خطرناک روپ دھارنے والی ہے۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں گذشتہ کئی سالوں سے کھاتے پیتے اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا عسکریت پسندی کی طرف راغب ہونا ایسے ہی واقعات کے سبب ہے جب پرامن احتجاجی مظاہرین کو گولیوں سے ہمیشہ کے لئے خاموش کروادیا جاتا ہے۔ سرینگر میں حزب المجاہدین کے دو فدائیوں کا دن دہاڑے سیکورٹی کے سخت حصار میں بھارتی وزیر اعظم من موہن کی آمد سے ٹھیک ایک دن پہلے بھارتی فوجی کانوائے پر حملہ اور اس جیسے بہت سے اشارے بھارت سرکار کے لئے یہ پیغام رکھتے ہیں کہ آنے والے دن سخت بھی ہونگے اور خونی بھی ۔ بھارت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل کشمیر کی عوام کو ان کا جائز اور پیدائشی حقِ خودارادیت دینا ہے، جس کے حصول تک کشمیری عوام اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ انشاءاللہ
Inul lilah e wa inna elayhay rajayoon!
nasrum minallahay fathun qareeb….insha ALLAH!