کس طرح ہوا نشترِ تحقیق تیرا کند
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
علامہ اقبال کا یہ شکوہ بہت پرانا ہے، افرنگی صوفوں اور ایرانی قالینوں کے ہوتے ہوئے جوانوں کی تن آسانی انہیں خون کے آنسو رُلاتی رہی۔ دیکھا جائے تو ان کی ناراضی بےجا بھی نہیں، سوشل میڈیا پر آج کے نوجوانوں کی اکثریت، کسی بھی تحقیق کے بغیر، بہت سی چیزیں محض ثواب کی نیت سے بھی پھیلانے کا موجب ہے، اب اسے سادہ لوحی کہئے یا تن آسانی، مگر’تحقیق’ کا عنصر عنقا ہے۔ خیر یہ تو عام زندگی کی ایک مثال ہے، مگر عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ ہمیں تحقیق سے کوئی دلچسپی نہیں، جس پہ اکثر تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ “مسلمانوں نے پچھلے پانچ سو سال سے کچھ ایجاد نہیں کیا” جیسی باتیں بھی اکثر سننے کو ملتی ہیں، لیکن تحقیق کے ضمن میں، پاکستان میں, حالیہ کچھ برسوں میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے، جس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی کوششوں کا ایک بڑا عمل دخل ہے، جو کہ تحقیق کے میدان میں ہر قسم کی معاونت فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہے، اور جہاں ذکر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا ہو، وہاں ایک شخصیت کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہے،
‘ڈاکٹر عطاء الرحمٰن’ جو کہ مشیر سائنس کے علاوہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین بھی رہ چکے ہیں اور عالمی طور پر جانے مانے سائنسدان ہیں جن کا میدان ” قدرتی مصنوعات کا کیمیاء (natural product chemistry) ہے, نامیاتی کیمیاء (organic chemistry) کے بارے میں ان کے اہم مطبوعات کی تعداد 900 سے زائد ہے, ان میں یورپ اور امریکہ میں شائع ہونے والی 155 وہ کتب بھی شامل ہیں جن میں ڈاکٹر عطاءالرحمٰن کے کام کا حوالہ دیا گیا ہے.
ڈاکٹر عطاءالرحمٰن 22 ستمبر 1942 کو دہلی میں پیدا ہوئے. ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے۔ ان کا خاندان 1952ء میں ہجرت کے بعد پاکستان آباد ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی، 1958 میں او-لیول کا امتحان پاس کیا اور پورے پاکستان میں اوّل آئے۔ 1964ء میں کراچی یونیورسٹی سے کیمیاء (chemistry) میں بی ایس سی آنرز کی ڈگری حاصل کی، وہ 1964ء میں کراچی یونیورسٹی میں کچھ عرصے کے لئے لیکچرار کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 1965ء میں نامیاتی کیمیاء (organic chemistry) میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور اسی سال ڈاکٹریٹ کےلئے دولتِ مشترکہ کا وظیفہ (common wealth scholarship) بھی حاصل کیا۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے کنگز کالج میں شمولیت اختیار کی اور جے۔ ہارلن ۔ میسن (J. Harlon-Mason) کے زیرنگرانی قدرتی مصنوعات (natural products) پر تحقیق کا کام جاری رکھا۔ ان کا مقالہ نامیاتی مادے اور قدرتی مصنوعات سے متعلق ہے۔ انہوں نے 1968ء میں، محض چھبیس برس کی عمر میں ، نامیاتی کیمیاء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ 1969 سے لے کر 1973 تک کیمبرج یونیورسٹی کا حصہ رہے۔ انہیں کنگز کالج کے فیلو منتخب ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس عرصے کے دوران ڈاکٹر عطاء الرحمن نے نوبل انعام یافتہ سر رابرٹ رابنسن اور ان کے دو ساتھیوں کے alkaloid hernaline مرکبات پر تحقیق کی اور ان کے نتائج کو غلط ثابت کیا, اور اپنے نتائج کو بعد ازاں دو مختلف ‘پیپرز’ میں شائع کیا۔
1973ء میں پاکستان واپسی کے بعد انہوں نے پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری، جو بعد میں “حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری (ایچ۔ای۔جے)” کہلایا جانے لگا، میں شمولیت اختیار کی ، 1974ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنی واپسی کے پہلے ہی سال ملک میں سائنسی تحقیق کے میدان میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
1979ء میں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے اپنی پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تحقیق university of Tubingen سے مکمل کی اور مُلک واپسی پر کراچی یونیورسٹی کا حصہ بنے۔ 1990ء میں وہ ایچ۔ای۔جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2008ء میں انہیں ‘انٹرنیشنل سنٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز’ کے پیٹرن ان چیف کے عہدے پر تعینات کیا گیا اور 2011ء میں انہیں کراچی یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر ایمریٹس کا عہدہ دیا گیا۔ ان کے زیرِ نگرانی 72 اسکالرز نے پی ایچ ڈی مکمل کی۔
انہوں نے 1996ء سے لے کر 2012ء تک، ‘کمیٹی برائے سائنسی و تکنیکی معاونت’ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں خدمات انجام دیں، وہ 1997 میں او آئی سی کی ‘کمیٹی برائے سائنسی و تکنیکی معاونت’ کے کوآرڈینیٹر جنرل بھی رہے جو 57 ممبر ممالک کے سائنس و ٹیکنالوجی کے 57 وزراء پر مشتمل تھی۔
1999ء میں وہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی میں بطور وزیر شامل ہوئے۔ 2002ء میں انہیں وزیرِتعلیم مقرر کیا گیا ، اسی سال وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین کے عہدے پر بھی تعینات کئے گئے اور 2008ء میں، مستعفی ہونے تک، اس کے عہدے پر فائز رہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں کیمبرج یونیورسٹی نے اعزازی Sc.D (ڈاکٹریٹ اِن سائنس) کی ڈگری دی۔ اپنے کام کی بدولت حکومتِ پاکستان سے نشانِ امتیاز، ہلال امتیاز، تمغۂ امتیاز اور ستارۂ امتیاز وصول کرنے والے ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو حکومت چین نے سب سے بڑے قومی ایوارڈ “فریڈم ایوارڈ” سے نوازا۔ اس کے علاوہ متعدد مشہور یونیورسٹیوں کی طرف سے انہیں اعزازی ڈگریاں بھی دی گئیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کا شمار بیسویں صدی کے نامور natural products chemists میں ہوتا ہے، جنہوں نے نہ صرف اس شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں بلکہ natural products chemistry اور NMR کے شعبے میں نئی جہات کو بھی متعارف کروایا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود پر ہونے والی تنقید کے باوجود اس کا منفی اثر اپنے مثبت کاموں پر نہیں پڑنے دیتے۔ ان کا شمار عالمی طور پر نامور سائنسدانوں میں ہوتا ہے، لیکن شاید پاکستان میں انہیں اور ان کے کام کے بارے میں جاننے والوں کی تعداد کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی زندگی اور کام سے کماحقہ فائدہ اٹھایا جائے جو نہ صرف سائنسدانوں اور محققین بلکہ عام لوگوں کیلئے بھی بہت سے اسباق لئے ہوئے ہے، اور ان کے تحقیق کے ضمن میں شروع کئےگئے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے جو کہ سائنسی اور مُلکی ترقی دونوں کے لئے ناگزیر ہیں۔۔