پاکستان کی تاریخ کی تیسری دفعہ وزیرِاعظم منتخب ہونے والی واحد شخصیت مسلم لیگ (ن) کے ۶۳ سالہ صدر میاں محمد نوازشریف ہیں، جو کہ تیرہ سال، سات ماہ اور اٹھارہ دن کے طویل صبر آزما انتظار اور تکالیف کا سامنا کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں دوبارہ داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بینظیر بھٹو کے بعد اگر صحیح معنوں میں کوئی قومی سیاسی لیڈر وفاق کی نمائندگی کرسکتا ہے تو وہ جناب میاں نواز شریف ہی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ میاں نوازشریف اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر پاکستان کو ترقی واستحکام کی نئی منزلوں سے روشناس کرائیں گے، مگر یہ خیال غلط ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔
ستمبر سنہ ۲۰۰۱ء میں امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے فوراً بعد دنیا کی سیاسی اور تزویراتی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ امریکہ ایک بپھرے ہوئے مست ہاتھی کی طرح ہر اس ملک پر چڑھ دوڑنے کے لئے تیار تھا جو اس کے سامنے سر اٹھا کر کھڑا ہو سکتا تھا۔ اس نے ان حملوں کا الزام افغانستان پر خود ہی لگا کر خود ہی اس کو سزا دینے کی ٹھانی تو قریب ترین ملک پاکستان رکاوٹ کے طور پر کھڑا نظر آرہا تھا، جس کے تعاون کے بغیر یہ کام اپنے انجام تک پہنچتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اس سے پہلے کہ پاکستان امریکہ کے اس سوال کا کوئی مناسب جواب دیتا، بھارت نے رضاکارانہ طور پر اپنے اڈے افغانستان پر حملے کے لئے امریکہ کو پیش کردئے تھے، جس کے نتیجے میں پاکستان نے انتہائی مجبوری کے عالم میں بھارت کے اس ہتھکنڈے سے بچنے کے لئے امریکہ کو اپنے تعاون کا اس شرط پر یقین دلایا کہ بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یہ کہنا کہ مشرف نے ایک فون کال پر ملکی خود مختاری کا سودا کیا درحقیقت حقائق سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے ۶ سال بعد فتنہء لال مسجد سامنے آیا جس کو منطقی انجام تک ایک فوجی آپریشن کے ذریعے پہنچایا گیا۔ لیکن درحقیقت یہ ایک اور بہت بڑے فتنے کا آغاز تھا جو تحریکِ طالبان پاکستان کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس کی بنیاد درحقیقت فوجی آپریشن نہیں بلکہ ایک تاریخی عقیدہ ہے جس کو دینی حلقوں میں ’خروج‘ اور عوامی حلقوں میں ’فتنہء تکفیر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لال مسجد کے آپریشن نے اس دبی ہوئی چنگاری کو آگ کے شعلوں میں بدل ڈالا، جو عقائد کتابوں میں بند اور سینوں میں چھپے ہوئے تھے ان کو زبانوں پر لا کر اعمال میں ڈھال دیا۔ روزنامہ ‘جنگ’ کی ۱۶ فروری سنہ ۲۰۱۳ء کی رپورٹ کے مطابق سنہ ۲۰۰۶ء میں ۹ مبینہ خودکش حملے ہوئے تھے جبکہ سنہ۲۰۰۷ء اورسنہ ۲۰۰۸ء میں ان کی تعداد بالترتیب ۵۷ اور ۶۱ تک چلی گئی، یہاں تک کہ سنہ ۲۰۰۹ء میں ۹۰ تک جا پہنچی:
اس ساری آگ کو بھڑکانے کے لئے جہادِ پاکستان جیسے موضوعات پر کتابیں لکھ کر اور تقاریر نشر کر کے ان کو انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں میں عام کیا گیا اور پاکستان کے معصوم مسلمانوں کے خون بہانے کے فتاوی جاری کئے گئے۔ ‘مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان’ کے فرضی نام سے عقائد کی ایسی کتب چھاپی گئیں جن میں بے جا تاویلات کرکے کلمہ گو مسلمانوں کے خون، مال اور بیوی بچے حلال ہونے کے فتاوی جاری کئے گئے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری نظریاتی جنگ میں ہمارے علماء کو جو کردار ادا کرنا چاہئے تھا وہ اس سے قاصر رہے سوائے گنتی کے چند علماء، مثلاً ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید، مولانا حسن جان شہید، حافظ محمد سعید کے علاوہ کسی کو برملا ان کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات نہ ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کئی سال کی خاموشی کے بعد سنہ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد صرف اتنا کہتے پائے گئے کہ جمہوریت کو حرام قرارد ینے والے ہمارے نظریے کے برخلاف ہیں۔ جبکہ دوسری جانب جماعتِ اسلامی کے امیر جناب منور حسن صاحب ایک ٹی وی پروگرام میں TTP کے خلاف کھل کر ایک لفظ بھی نہ کہہ پائے بلکہ اُلٹا حکیم اللہ محسود نامی کسی شخصیت کے وجود سے بھی لاعلم ہونے کا دعوی کرتے پائے گئے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات کی سیاست میں سرگرداں نظر آتی ہیں، کسی جماعت کا کوئی ایسا تھنک ٹینک نظر نہیں آتا جو کوئی پالیسی پیش کرسکے، ہر جماعت اپنے اقتدار کے ۵ سال پورا کرنے کی فکر میں ہے، ہر جماعت انتخابات سے پہلے ہر طرف خوشحالی لانے کے دعوے کرتی ہے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید سناتی ہے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکنجے سے نکالنے کی بھڑکیں مارتی ہے لیکن الیکشن کے ٹھیک اگلے دن سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور عوام بیچارے دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو! جب الیکشن اور جمہوری نظام ایک کاروبار بن جائے، جب سیاسی جماعتیں اپنے الیکشن ٹکٹ کڑوڑوں میں بیچیں، تو یہ سرمایہ کاری کرنے والے سیاست دان اپنے سرمایہ پر منافع حاصل کرنے کی فکر کریں گے یا ملک و قوم کے مفاد میں کوئی کام؟! وائس آف امریکہ کے انتہائی محتاط اندازے کے مطابق: انتخابی ٹکٹوں کی مد میں پیپلز پارٹی نے 37 کروڑ، مسلم لیگ ن نے 24 کروڑ، تحریکِ انصاف نے 10 کروڑ اور مسلم لیگ ق نے 13 کروڑ روپے کمائے۔ جو امیدوار ۲ سے ۳ کروڑ روپے الیکشن مہم پر خرچ کرکے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہو گا یقیناً اس کی پہلی ترجیح اپنی اس سرمایہ کاری پر منافع کا حصول ہوگی نہ کہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سنہ ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو باہم رشتہ دار ہیں ، شاید ہی کوئی بڑا نام اس سے بچا ہو۔ غرض یہ کہا جائے کہ موجودہ منتخب اسمبلی پاکستان میں موروثی سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہے تو غلط نہ ہوگا۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر نظریاتی بنیادوں پر کھڑی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ منتخب سیاسی حکومت ذاتی عناد سے بالاتر ہو کر، معاملہ فہمی کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اس کے خلاف ایک واضح پالیسی بنا کر کام کریں، اور جو لوگ گذشتہ کئی سالوں سے عملی طور پر اس کے خلاف برسرِپیکار ہیں اور حقیقی معنوں میں پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لئے بغیر کسی لالچ کے اپنا خون اور پسینہ بہارہے ہیں ان کے مشوروں اور تجاویز کو نظرانداز نہ کرے، اخبارات میں شہہ سرخیوں کی زینت بننے اورٹی وی ٹاک شوز میں رعونت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ دے کر پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو مقدم رکھا جائے، اور سب سے بڑھ کر بلند و بانگ زبانی دعووں کو چھوڑ کر زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے جائیں۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔ آمین!
جس انتہائی مجبوری کے عالم میں پاکستان نے اپنے دینی اور تاریخی بھائیوں اور سرحدی پڑوسیوں کے خلاف امریکہ کا تعاون کیا، وہ انتہائی مجبوری کیا تھی؟ کہ پاکستان سے زیادہ ہندوستان امریکہ کا محبوب ہو رہا تھا؟ اور امریکہ کے ساتھ تعاون کے لئے یہی شرط کافی تھی کہ ہندوستان کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہو گا، گویا اصل مقصد افغانستان میں اہم کردار کا حصول اور ہندوستان کو اس سے دور رکھنا تھا، اور اس مقصد کے حصول کے لئے افغانی بھائیوں پر امریکہ کو مسلط کروا دینا بھی جائز تھا؟
حاصل یہ کہ صدر مشرف نے امریکہ کی ایک فون کال پر نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک موقع پرستانہ وعدے پر ملکی خود مختاری کا سودا کر لیا!
مجھے تیری تحقیق اور کالم پر ترس آتا ہے۔۔۔ امت کو اس وقت تیرے جسیے لوگوں نے جو نقصان پہنچایا جو ک ہ سخت گیر مذہبی مسلک اور دوسروں مبتدع اور مشرک سمجھنے کی سوچ۔۔
لال مسجد کا طریقہ مکمل غلط لیکن فوجی اپریشن کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اپ نے اس کی حمایت کرکے فوج کی نمک حلالی کا ثبوت پیش کیا۔ کیونکہ ان کے بغیر تو اپ لاہور سے اسلام اباد کاسفر بھی نہیں کرسکتے ہیں۔۔
معاف کیجئے گا بھائی صاحب، لیکن مجھے اس کالم میں وہ سخت گیر مذہبی مسلک اور دوسروں کو مبتدع اور مشرک سمجھنے والی سوچ نظر نہیں آئی جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، اور نہ ہی لال مسجد میں فوجی آپریشن کی حمایت کے ہی آثار نظر آئے۔ آپ نشاندہی کرنا پسند فرمائیں گے؟