جب گرفتار دہشت گردوں کی شناخت کہیں اور کی پائی گئی تو میں نے اپنے آپ کو ان مجاہدوں کے آگے شرمندہ پایا جو امن کے زمانے میں جنگ کرتے ہیں تاکہ جنگ کے زمانے میں اپنی کی ہوئی جنگ کا نتیجہ دیکھیں۔
میں شرمندہ ہوں!
میں ایک پاکستانی ہوں، اور میرا خیال تھاکہ محب وطن بھی ہوں۔ بچپن میں معاشرتی علوم کی کتاب میں جو پہلا سوال یاد کیا وہ تھا: “پاکستان کب بنا اور کس نے بنایا؟”
جواب تھا: ” پاکستان ۱۴ اگست سنہ ۱۹۴۷ء کو قائدِ اعظم نے مسلمانوں کی مدد سے بنایا۔” اور تب بھی پاکستان کے لئے کوشش جاری رکھی جبقائد کو آخری سٹیج کی ٹی بی ہو گئی تھی۔ اور ان مسلمانوں کی مدد سے پاکستان بنا جنہوں نے اس ملک کے لئے جان بھی دی اور مال بھی، اولاد بھی قربان کی اور عزت بھی۔
کیپٹن راجہ سرور شہید [نشانِ حیدر] وہ پہلی شخصیت تھے جن کے ذریعے مجھے پتا چلا کہ نشانِ حیدر کسے کہتے ہیں اور شہادت کا مرتبہ کیا ہوتا ہے۔ مجھے لگا مجھے کیپٹن سرور سے بہت عقیدت ہے۔
پھر جب سننے میں آیا کہ ہماری ایجنسی دنیا کی بہترین ایجنسی ہے تو میرا سر فخر سے تن گیا، میری حب الوطنی میں کیا شک تھا بھلا؟
کچھ عرصہ قبل میں نے سنا کہ ہمسایہ ملک کے تاریخ کے ایک پروفییسر نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ قائدِ اعظم بھی پاکستان نہیں بنانا چاہتے تھے، اور اگر ہندوستان متحد ہوتا تو دنیا میں پہلے نمبر پر ہوتا۔ میرا دل ڈانواڈول ہوا، بھلا جب اتنے سالوں سے ہندو اور مسلم اکٹھے تھے تو پاکستان بنانے کی کیا تک تھی بھلا؟ اور ہو سکتا ہے کہ قائدِ اعظم نے
بھی پاکستان کے لئے کوشش کی ہی نہ ہو، مگر جب میں نے ٹی بی کا آخری سٹیج کا مریض دیکھا تو مجھے سمجھ آیا کہ بے لوث خدمت سچائیکے ساتھ اسی حالت میں کی جا سکتی ہے۔ میں نے اپنے آپ کو قائدِ اعظم کی روح کے سامنے شرمندہ پایا کہ میں نے اس ملک کی اساس اور قائدکی جدوجہد پر شک کیا۔
“اجی ہم سب ایک ہیں، یہ درمیان کی لکیر کیا معانی رکھتی ہے، ہم کو تو بس امن کی آشا ہے، اور پھر فنکار کی کوئی سرحد کیوں ہوتی ہے؟ اور اس کی فنکاری دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے؟” واقعی فنکار سے بھلا کیا ضرر ہو سکتا ہے ملک کو؟ اور ہمسایہ ملک کی ثقافت دیکھنے دکھانے میں تو کوئی برائی نہیں۔ میرا دل ایک بار پھر ایمان لے آیا، مگر جب میں نے اپنے ہی ملک کے بچوں کو “ہنومان کی جے” کے نعرے لگاتےہوئے سنا اور کسی کا تکبر بھرا بیان کہ “ہم نے دو قومی نظریہ خلیجِ بنگال میں ڈبو دیا ہے!” تو میں نے اپنے آپ کو تحریکِ آزادی کے لاکھوںشہداء کے سامنے شرمندہ پایا جنہوں نے اپنا سب کچھ اس ںظریے کی خاطر وار دیا تھا!
“پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے؟ انسان ساری زندگی پڑھے اور پھر ڈھنگ کا سروس سٹرکچر بھی نہ ملے تو کیا فائدہ؟ مجھے امریکہ جانا ہے جہاں ہر کام کے پیسے تو اچھے ملتے ہیں۔” اس لمحے میں نے اپنے آپ کو کیپٹن سرور شہید کی روح کے سامنے شرمندہ پایا، اگر روزِ حشر انہوں نے مجھ سے پوچھ لیا کہ تمہارے جس جس گھر کی حفاظت کی خاطر میں اپنا گھر ادھورا چھوڑ آیا اس کی ترقی میں تمہارا حصہ کتنا ہے؟اور مجھ سے عقیدت تھی تو اس ملک کا قرض بھی اتارا ہوتا، تو میرا جواب کیا ہو گا؟
“پاک بھارت عوام تو امن چاہتی ہے لیکن ایجنسیاں ایسا نہیں چاہتیں۔ ساری قتل و غارت انہی کی مچائی ہوئی ہے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں۔ اور جب ان سے پوچھو کہ جی کیا کام کیا آپ نے؟ تو کہتے ہیں ہم نے بہت قربانیاں دیں۔ اجی قربانیاں دی ہیں تو حساب دیتے کس بات کا ڈر ہے پھر؟” واقعی امن قائم ہو جائے تو اس سے کس کا نقصان ہے؟ پھر اس ایجنسی کی ضرورت ہی کیا رہ جائے گی بھلا؟ مگر جب گرفتار دہشت گردوں کی شناخت کہیں اور کی پائی گئی تو میں نے اپنے آپ کو ان مجاہدوں کے آگے شرمندہ پایا جو امن کے زمانے میں جنگ کرتے ہیں تاکہ جنگ کے زمانے میں اپنی کی ہوئی جنگ کا نتیجہ دیکھیں۔ میں واقعی شرمندہ ہوں! اگر روزِ قیامت ان سب لوگوں نے مجھ سے جواب مانگا توسوائے شرمندگی کے میرا جواب کیا ہو گا؟
awesome alina api.ye question tu her pakistani k dil mae hai
hearttouching blog
bohut khoob!!!