مذاکرات کی میز پر بھی بھارت چاہتا ہے کہ اس کو تجارتی راہداری دی جائے، ویزہ پالیسی نرم کر دی جائے، پاکستانی منڈی میں بھارتی مال دھڑا دھڑ بِکتا رہے۔ اور اگر کوئی بات نہ ہو تو سرکریک، سیاچن اور پانی پر نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر کشمیر پر نہ ہو جہاں بھارت نے ۷ لاکھ فوج گھسا کر ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور بے گناہ کشمیریوں کو درانداز قرار دے کر شہید کیا جا رہا ہے۔
میں ایک پاکستانی ہوں۔ پ کشمی چھلے دنوں ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کا بہت غلغلہ تھا جس میں ہمارے وزیرِ اعظم صاحب کو اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کرنی تھی، آخری وقت تک یہ ملاقات بے یقینی کا شکار رہی۔ اس سے پہلے بھی وزیر اعظم صاحب کی طرف سے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے لیے بیتابی کا اظہار کیا جاتا رہا تھا، کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک بیان بھی اخبار کی زینت بنا کہ “بھارت سے تعلقات کی بحالی کے لیے ‘ٹریک ٹو ڈپلومیسی’ کارآمد رہی ہے۔”
میں ایک عام پاکستانی ہوں جس کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں کہ یہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی ہوتی کیا ہے؟ اور اس سے کیا فا ئدہ پہنچتا ہے؟
ایک بار پھر مجھے وہیں رجوع کرنا پڑا جہاں ہدایت کا وعدہ ہے۔
اس بار جو سورت کھل کر آئی وہ ہے سورۃ الممتحنۃ:
“۔۔۔۔۔تم ان کی طرف پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، جو تم مخفی طور پر کرتے ہو اور جو علی الاعلان کرتے ہو وہ مجھے معلوم ہے، اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ اگر یہ کافر تم پر قدرت پا لیں تو تمہارے دشمن ہو جائیں اور ایذا کے لیے تم پر ہاتھ چلائیں اور زبانیں، اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ۔”
شاید یہی ‘ٹریک ٹو ڈپلومیسی’ ہوتی ہو، اگر آپ میں سے کوئی جانتا ہے تو مجھے ضرور بتائے۔ مگر میرا تصور پیچھے کو سفر کر رہا ہے، غرناطہ کے آخری حکمران ابو عبداللہ نے بھی شاید ایسے ہی دوستی کے پیغام پہنچائے ہوں اور نتیجے میں زبان اور ہاتھ سے اذیت برداشت کی ہو، ہو سکتا ہے شاہِ ایران نے بھی ایسے ہی دوستی کے پیغام بھیجے ہوں اور نقصان اٹھایا ہو۔ دور کیوں جائیے، ہو سکتا ہے جنرل السیسی نے بھی ایسے ہی دوستی کے پیغام بھجوائے ہوں اور نتیجہ آج مصری عوام بھگت رہی ہے۔ مگر خیر۔۔۔
جنرل اسملی میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم صاحب نے کشمیر کا ذکر کیا کہ سات دہائیوں سے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر ہے جسے اب حل ہونا چاہیے، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے سنہ۱۹۹۹ء میں چھوڑے تھے۔
اس دوستی کے پیغام کےجواب میں منموہن صاحب نے جواب دیا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی فیکٹریاں بند کرنا ہوں گی، اور یہ کہ کشمیر بھارت کا ‘اٹوٹ انگ’ ہے۔
اس کے بعد دونوں وزراءِ اعظم کی ناشتے کی میز پر ملاقات ہونا تھی جو کہ ناشتے کے بغیر انجام پائی۔ اس ملاقات سے قبل ہی بھارت کا اصرار تھا کہ اس ملاقات سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کی جائیں۔
اگلے روز بھارتی متوقع وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ منموہن سنگھ کو چاہیے تھا کہ پاکستانی وزیرِ اعظم سے پوچھتے کہ آزاد کشمیر ہمیں کب واپس ملے گا، اور اگر یہ نہیں کہہ سکتے تھے تو کم از کم یہی پوچھ لیتے کہ ہمارے اُن پانچ بھارتی فوجیوں کے سر کب واپس ملیں گے؟
جبکہ بھارتی صدر کا کہنا تھا کہ دہشت گرد جنت سے نہیں پاکستان سے آتے ہیں۔
اور یہ سب سننے کے بعد میں سوچ رہی ہوں کہ ابھی اِن خدا اور اُس کے رسول کے دشمنوں نے قابو بھی نہیں پایا اور ایذا کے لیے زبانیں دراز کر لی ہیں، پھر بھی ہماری آنکھیں ابھی تک ‘امن کی آشا’ کی چمک دمک سے خیرہ ہو رہی ہیں!
آج کے اخبار میں شائع ہونے والے بیان میں سیکریٹری دفتر وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت متعلقہ فورم پر پیش کر دئے گئے ہیں، اور اب سوال یہ ہے کہ یہ متعلقہ فورم کون سا ہے؟ کیا یہ ثبوت میڈیا پر پیش کئے جا سکتے ہیں جہاں بلوچستان میں بد امنی اور لا پتہ افراد کی آڑ میں ہمیشہ پاک فوج اور ایجنسیوں کو رگڑا دیا جاتا ہے؟
وزیرِ داخلہ نثار علی خان کے بقول اگر بھارت میں پٹاخہ بھی چلے تو بھارتی میڈیا پاکستان پر الزام لگا کر واویلہ شروع کر دیتا ہے۔ اس کے بر عکس ہمارا میڈیا ایسی ہر بیرونی مداخلت پر اپنی ہی محافظ ایجنسیوں کے خلاف تلوار سونت کر میدان میں کود پڑتا ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف صاحب کا اصرار ہے کہ دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر مسائل کا حل تلاش کریں، اور بجٹ کا جو بھاری حصہ ایک دوسرے کے خلاف بھاری ہتھیار خریدنے پر صرف کرتے ہیں وہ غربت میں پسی ہوئی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ اس سے قبل بھی وزیرِ اعظم بغیر دعوت بھارتی دورے پرجانے کا عندیہ دے چکے ہیں، جبکہ بھارت کا اصرار ہے کہ ‘لائن آف کنٹرول’ کو سرحد کا درجہ دیا جائے۔ مذاکرات کی میز پر بھی بھارت چاہتا ہے کہ اس کو تجارتی راہداری دی جائے، ویزہ پالیسی نرم کر دی جائے، پاکستانی منڈی میں بھارتی مال دھڑا دھڑ بِکتا رہے۔ اور اگر کوئی بات نہ ہو تو سرکریک، سیاچن اور پانی پر نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر کشمیر پر نہ ہو جہاں بھارت نے ۷ لاکھ فوج گھسا کر ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور بے گناہ کشمیریوں کو درانداز قرار دے کر شہید کیا جا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم صاحب! امن کی خواہش بہت اچھی ہے، ہمسائے واقعی تبدیل نہیں کئے جا سکتے، لیکن یہ خواہش اپنی خودداری اور اپنے جائز حق کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے۔
آپ کی آرزو ہے کہ بھارت سے “ہر قیمت” پر مذاکرات ہوں، میری دعا ہے آپ کی آرزو بدل جائے!
Allah kray aur zoor e qalam ziada…
My salute to you and I truly, truly love and endorse your views.