اقبال اپنے اسلاف کے شاندار ماضی کو ملت کے نوجوانوں میں جلوہ گر دیکهنا چاہتے تهے. ملتِ اسلامیہ کا درد اور اس کی تعمیرِ نو کا جذبہ اقبال کے دل میں موجزن تها. وہ اپنی فکر وسوچ کو شاعری کے قالب میں ڈهال کر خوابیدہ ملت کو بیدار کرنا چاہتے تهے.
9 نومبر سنہ1877 ء کو پیدا ہونے والے باکمال شاعر، بلند پایہ مفکر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال تاریخ کا ایک روشن اور ناقابلِ فراموش باب ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام وپیغام سے برِ صغیر پاک وہند کی ملتِ اسلامیہ کو ایک نیا ولولہ اور نئی جہت عطا کی. انہوں نے اپنی علمی اور فکری دولت کو اپنی شاعری میں بے حد خوبصورتی سے سمویا. مسلمانوں کی تاریخِ فکر وادب میں اقبال کی شاعری اور فکر نے انمٹ نقوش چھوڑے. یہ اقبال کے افکار کی وسعت ہی تهی جس نے انہیں ‘شاعرِ مشرق’ کا لقب دلوایا اور عقل وعشق کی گتھیاں سلجھانے میں انہوں نے رومی وغزالی جیسے عظیم فلسفیوں سے بھرپور استفادہ لیا۔
اقبال مسلمانوں کے علمی اور روحانی ورثے سے اچهی طرح واقف تهے اور مغربی علوم وتہذیب کو بهی بخوبی جانتے تهے. وہ آگاہ تهے کہ مغرب کی مادہ پرستی انسانیت کو کس طرح نقصان پہنچا کر انسانی فکر اور ثقافتی ترقی پہ اثرانداز ہوتی ہے، اسی لئے وہ ایک ایسے نظام کا خواب دیکهتے تهے جہاں انسانی شخصیت کی تطہیر اور اجتماعی طور پر قوم وملت کی روحانی وفکری تعمیر ہو سکے. اقبال اپنے اسلاف کے شاندار ماضی کو ملت کے نوجوانوں میں جلوہ گر دیکهنا چاہتے تهے. ملتِ اسلامیہ کا درد اور اس کی تعمیرِ نو کا جذبہ اقبال کے دل میں موجزن تها. وہ اپنی فکر وسوچ کو شاعری کے قالب میں ڈهال کر خوابیدہ ملت کو بیدار کرنا چاہتے تهے.
اقبال کہتے ہیں:
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح وشام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ وگل سے کلام پیدا کر
اٹها نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا وجام پیدا کر
میں شاخِ نازک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، فقیری میں نام پیدا کر
(اقبال کا یہ پیغام ان کے فرزند کے نام تها مگر اپنی عمومیت کے باعث ملتِ اسلامیہ کے لئے ایک روشن راہ ہے۔)
اقبال نے اپنی شاعری سے ہر موڑ پر مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا. انفرادی واجتماعی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جسے اقبال نے اپنی شاعری کا حصہ نہ بنایا ہو. اقبال کے کلام میں دین، فلسفہ، عرفان، ایقان، خودشناسی، خداشناسی غرض تمام رنگ نظر آتے ہیں. اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے نہایت پُر تاثیر انداز میں اسلامی تہذیب اور اعلی دینی واخلاقی اقدار کا درس دیا ہے۔
.
اپنی معرکۃ الآراء نظم “طلوعِ اسلام” میں ملت کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں:
مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے
حنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے
تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی
جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا امتحاں تو ہے
نبوت ساتھ جس کو لے گئی، وہ ارمغاں تو ہے
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے
اقبال کی شاعری کا محور قوم کی بیداری اور فلاح ہے۔ اقبال اس عزم کے علم بردار تھے کہ اسلام اور ملتِ اسلامیہ کو ایک بار پھر عروج حاصل ہو۔ ان کی فلسفیانہ فکر مسلم امت کی نشاۃِ ثانیہ کی جد وجہد کی غماز ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اقبال کا کلام ملت کیلئے دعوتِ فکر ہے۔ ایک جگہ وہ مسلمانوں کے اندر چھپے جذبۂ ایمانی کو جگاتے ہوئے کہتے ہیں:
خدا تجهے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
سنہ ۱۹۴۴ء میں یومِ اقبال کے موقع پر قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مفکرِ پاکستان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا: “اقبال ایک عظیم شاعر اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عملی سیاست داں بھی تھے۔”
اقبال ملتِ اسلامیہ کے عظیم معمار تھے۔ ان کا پیغام ہر دور میں ملت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ موجودہ دور میں ملتِ اسلامیہ جن مسائل اور آزمائشوں سے دوچار ہے ان کے پیشِ نظر فکرِ اقبال کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لئے ان کا پیغام اس ایک شعر میں سمٹا نظر آتا ہے:
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
ایک اچھی کاوش۔
اقبال کا کمال یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری تصویر کے دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ جہاں یہ خودی کی اہمیت سے روشناس کرتی ہے، وہیں بے خودی کے مراحل بھی۔