اس وقت ساری دنیا کی نگاہیں قطر کے دارالحکومت دوحہ کی جانب ہیں، جہاں گزشتہ ۱۱ سال سے ایک دوسرے سے برسرِپیکار قوتیں بالآخر مذاکرات کی میز پر موجود ہیں۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی خبریں تو سنہ ۲۰۰۹ء سے ہی گرم ہیں، مگر اس دفعہ باضابطہ دفتر کے قیام سے ان کی سنجیدگی عیاں ہے، یہ اور بات ہے کہ دفتر کے نام اور اس میں لہرائے جانے والے ’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کے جھنڈے نے ایک دفعہ پھر مذاکرات کے لئے ہموار نظر آتی فضا میں شکوک وشبہات کے بادل بھر دئے ہیں۔ اگرچہ ابھی ان مذاکرات سے فوری طور پر کسی نتیجہ کی امید رکھنا قبل از وقت ہوگا، لیکن امریکی فوج کے انخلاء کی قریب آتی تاریخ نے امریکہ کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جس کا اثر یقینی طور پر مذاکرات کیمیز پر نظر آئے گا۔
تین عشرے قبل افغانستان سے روسی انخلاء کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان بھارت کے حصے میں آیا تھا۔ مسلم عسکریت پسندوں نے کشمیر کی تحریکِ آزادی میں جان ڈال دی تھی اور بھارت کو کافی نقصان سے دوچار کیا تھا، لیکن ستمبر سنہ ۲۰۰۱ء کے بعد جب دنیا دہشت گردی کی تعریف پر یکسو ہوئے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے افغانستان میں اتری تو اس کا بالواسطہ اثر کشمیر پر بھی پڑا۔ بھارت نے عالمی برادری سے دباؤ ڈلوا کر پاکستان کو مجبور کر دیا اور کنٹرول لائن پر جنگ بندی (سیز فائر) کروا لی، اور اسی سیز فائر کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل کی طرز پر آزاد کشمیر سے کشمیریوں کی مسلح جدوجہد میں شمولیت کو روکنے کے لئے باڑ، کنکریٹ بنکر، رات کو دیکھنے والے آلات اور طرح طرح کے حساس آلات (سینسرز) نصب کردئے۔ اس باڑ نے چند سال تو کشمیریوں کو پریشان کئے رکھا لیکن ان کی ہمت کے آگے یہ باڑ سرنگوں ہے، اور پندرہویں کور کے لیفٹیننٹ جنرل عطا حسنین نے اپنیملازمت کے اختتام پر برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ کشمیر میں دراندازی کو روکنا نا ممکن ہے۔
اب جبکہ سنہ ۱۹۸۹ء جیسی صورتحال دوبارہ پیدا ہونے کے دہانے پر ہے، بھارت کے اعلی حکام اس بات پر پریشان ہیں کہ سنہ ۲۰۱۴ء کے امریکی انخلاء کے بعد کیا صورتحال پیدا ہوگی اور اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔ روسی انخلاء کے وقت افغانستان میں چھ بڑے عسکری گروپ تھے، جن کی روسی انخلاء کے بعد باہمی لڑائی نے ان کی عسکری وافرادی قوت کو کافی نقصان پہنچایا۔ سنہ ۱۹۹۶ء میں امارتِ اسلامیہ کے قیام کے بعد افغانستان میں امن وامان کی فضا برسوں بعد پیدا ہوئی تھی، لیکن اس وقت بھارت نے طالبان کے مقابلے میں شمالی اتحاد کا ساتھ دیا تھا اور ان کو ہر ممکن مدد بھی پہنچائی تھی۔ اگرچہ امریکی نگرانی میں قائم کرزئی حکومت میں بھارتی حکومت نے ۷۵۰ (ساڑھے سات سو) بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے،لیکن اس کے باوجود یہ بات بعید از قیاس ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان اور بھارت کے درمیان کوئی دوستی کا رشتہ قائم ہو سکے اور دونوں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کریں۔
بھارت نے امریکی آشیرباد حاصل کرنے کے لئے اپنے تیل کے برآمدات کا انحصار ایران پر سے بتدریج کم کردیا یہاں تک کہ گذشتہ سال ۲۰ بلین ڈالر کا تیل عراق سے درآمد کیا ہے۔بھارتیوزیرِ خارجہ، جو کہ حال ہی میں عراق کا دورہ کر کے واپس پہنچے ہیں، ان کو عراقی حکام نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ عراق بھارت کی تیل کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے تیار ہے۔ دوسری جانب اگرچہ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے اپنے تازہ ترین دورہء بھارت میں کھلے لفظوں میں افغانستان میں بھارتی کردار کی یقین دہانی کرائی ہے اور اپریل سنہ ۲۰۱۴ء میں ہونے والے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ بھارتی کردار پر زور دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی بے چینی دور نہیں ہو رہی، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے باعزت اور باحفاظت واپسی کی جلدی ہے، ۔ جب مذاکرات کا دور گرم ہوگا تو امریکہ صرف اپنی عزت اور جان بچانے کو ترجیح دیگا اور باقی سارے مفادات ثانوی حیثیت اختیار کر جائیں گے۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ افغانستان میں امریکی آمد کے ساتھ ہی بھارت نے افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیا تھا اگرچہ افغانستان کی کوئی سرحد براہِ راست بھارت کے ساتھ نہیں ملتی۔ ان ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے بھارت افغان عوام پر اپنا اثر و رسوخ بنا کر’سافٹ پاور‘ کے طور پر سامنے آنا چاہتا تھا، اور اس اثرورسوخ کو پاکستان کے خلاف استعمال کر کے دور رس نتائج حاصل کرنا مقصود تھے۔ لیکن اوبامہ حکومت کے افغانستان سے انخلاء کے مشوروں کے بعد بھارت نے باقاعدہ لابنگ اور ذرائعِ ابلاغ (میڈیا) کے ذریعے یہ شور مچایا کہ امریکہ کو افغانستان چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے، اور انخلاء کے اعلان کے ساتھ ہی تمام ترقیاتی منصوبوں پر بیک جنبشِ قلم کام روک دیا گیا۔ بھارت کی افغانستان کے مسئلے پر سنجیدگی کا اس سے بخوبی اندازہ ہو جانا چاہئے کہ بجائے اس کے کہ بھارت افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنےکے لئے اپنے فوجی بھیجنے کی پیش کش کرتا صرف امریکہ کو افغانستان میں رہنے کی تلقین کرتا رہا۔
سنہ ۲۰۰۱ء کے بعد سے بھارت مسلسل پاکستان مخالف لوگوں کی ہر طرح کی امداد کرتا آیا ہے، BLA ہو یا TTP، سندھو دیش ہو یا اور کوئی قوم پرست، ہر ایک سے روابط اور امداد کر کے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے منصوبوں پر عمل درآمد ہوتا آیا ہے؛ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب بھارت کی یہ کوششیں جلد ہی اسی پر پلٹنے والی ہیں۔ امارتِ اسلامیہ سے امریکی مذاکرات اور اس کے بعد طے پانے والے معاہدے کے خدوخال کچھ بھی ہوں، خطے میں بھارت کا مستقبل تاریک ہے اور فی الحال کوئی بھی تجزیہ نگار کوئی ایسا نقشہ پیش کرنے سے قاصر ہے کہ جس کے ذریعے بھارت اس تاریکی کو روشنی میں بدل سکے۔