ماہی بچہ ئی شوخ بہ شاہیں بچہ ئی گفت
این سلسلۂ موج کہ بینی ہمہ دریاست
(ایک شوخ سے مچھلی کے بچے نے شاہین کے بچے سے کہا
یہ سلسلۂ موج جو تو دیکھ رہا ہے، سب کا سب سمندر ہے)
دارا ای نہنگان خروشندہ تر از میغ
در سینۂ او دیدہ و نادیدہ بلاہاست
(اس میں ایسے مگرمچھ ہیں جو بادلوں سے زیادہ گھن گرج رکھتے ہیں
اس کے سینے میں بہت سی دیکھی اور ان دیکھی بلائیں ہیں)
با سیل گران سنگ زمین گیر و سبک خیز
با گوہر تابندہ و با لولوی لالاست
(اس میں ایسے سیلاب ہیں جو بھاری پتھر ساتھ لاتے ہیں، جو زمین پر پھیل جاتے ہیں
اور اس میں چمک دار گوہر اور موتی پائے جاتے ہیں)
بیرون نتوان رفت ز سیل ہمہ گیرش
بالای سرماست، تہ پاست، ہمہ جاست
(اس کے سیلِ ہمہ گیر سے نکلا نہیں جا سکتا
یہ ہمارے اوپر، نیچے، ہر جگہ موجود ہے)
ہر لحظہ جوان است و روان است و دوان است
از گردش ایام نہ افزون شد و نی کاست
(یہ ہر لحظہ جواں ہے، رواں ہے اور دواں ہے
گردش ایام سے نہ اس میں کمی ہوتی ہے نہ زیادتی)
ماہی بچہ را سوز سخن چہرہ برافروخت
شاہین بچہ خندید و زساحل بہ ہوا خاست
(مچھلی کے بچے نے اتنے جوش سے بات کی کہ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا
شاہین کا بچہ مسکرایا اور اس نے ساحل سے ہوا میں اڑان بھری)
زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمین چیست
صحراست کہ دریاست تہ بال و پر ماست
(اس نے ہوا سے آواز دی میں شاہین ہوں، میرا زمین سے کیا کام
صحرا ہو یا دریا، میرے بال و پر کے نیچے ہے)
بگذر زسر آب و بہ پہنای ہوا ساز
این نکتہ نبیند مگر آن دیدہ کہ بیناست
(پانی سے نکل کر ہوا کی وسعت میں آ
اس نکتے کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جو بِینا ہو)
(شاہین و ماہی۔۔۔از علامہ اقبال)
ماہرین کے مطابق شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو اونچی چٹانوں پر رہتا ہے۔ جسامت میں قریباً تمام پرندوں سے بڑا ہے۔ محض گدھ جسامت میں شاہین کے برابر ہے مگر شاہین یوں ممتاز ہے کہ مردار نہیں کھاتا، بلکہ ہوا میں ہی اپنا شکار پکڑ لیتا ہے، دور بین و تیز نگاہ ہے (دو میل تک دیکھ سکتا ہے)۔ بلند پرواز ہے، تنہا پرواز کرتا ہے، دھوکہ نہیں کھاتا، اپنے بچوں کو مصائب کا مقابلہ سکھاتا ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ طوفان کی آمد اسے مسرور کرتی ہے، آسمان پہ جمع ہوتے ہوئے بادل اس کے جوش وخروش میں اضافہ کرتے ہیں، اور طوفانی ہواؤں کو یہ بلند پروازی کےلئے استعمال کرتا ہے۔
شاہین۔۔۔۔۔ جس کا تصور علامہ اقبال کی شاعری میں جابجا ملتا ہے، جس کی خوبیوں سے وہ اپنے نوجوانوں کو مرصع دیکھنا چاہتے تھے، گو ان کی شاعری میں بلبل و طاؤس کا ذکر بھی ہے، لیکن اپنی جلال پسندی کے باعث اقبال اپنی شاعری میں شاہین کو فوقیت دیتے نظر آتے ہیں۔
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
اپنے دور کے حالات کے تناظر میں مسلم قوم کو عمل پر اکسانے کے لئے اقبال جمال پسندی سے کچھ دور نظر آتےہیں اور مسلم نوجوانوں کو بھی اس سے بےزاری کا مشورہ دیتے ہیں
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ
اقبال کے ہاں “شاہین” ایک تصور سے بڑھ کر علامت کا درجہ رکھتا ہے، شاہین سے اپنے لگاؤ کی وجہ علامہ اقبال اپنے ایک خط میں ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
“شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے، اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خوددار اور غیرت مند ہے کہ اوروں کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا، بلند پرواز ہے، خلوت نشیں ہے، تیز نگاہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
اقبال کا “مردِ مومن” بھی انہی صفات سے مزین ہے جن کا ذکر اقبال کی شاعری میں ملتا ہے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبال کا مردِ مومن شاہین کی طرح عمل پسندی، ایقان اور وقار کا نمونہ ہے
ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام و قفس سے بہرہ مند
شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست
ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند
مردِ مومن بھی شاہین کی طرح تیز نگاہ اور خوددار ہے، جس کی زندگی سعیِ مسلسل سے عبارت ہے
زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر
شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بےہنر
لیکن اے شہباز!یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دم پرواز سر تا پا نظر
طوفان کی آمد پر شاہین چھپتا نہیں، اور حالات کی تلخی سے مایوس ہونے کے بجائے ان سے حوصلہ کشید کر کے محوِ پرواز رہتا ہے، یہی خصوصیت اقبال کے نزدیک بندۂ مومن کی بھی ہے
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
اور ایک اور جگہ یہ نکتہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
ضربِ کلیم کی نظم “مومن” میں علامہ اقبال مومن کی خوبیاں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزار ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
ایک طرف تو اقبال شاہین کی شان میں رطب اللسان ہیں تو دوسری طرف تہذیب نوی کی تعلیم و تربیت سے نالاں بھی نظر آتے ہیں جو نئی نسل کو ‘شاہین’ کی صفات سے یکسر محروم کرنے کا باعث ہیں
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
اقبال کی شاعری سے جہد و عمل، ایقان و عرفان اور خودی جیسے لاتعداد اسباق اخذ کئے جا سکتے ہیں، یہی اسباق اقبال کی شاعری کو کسی ایک زمانے تک محدود نہیں ہونے دیتے بلکہ اسے ہر دور کی شاعری بناتے ہیں، جن پر عمل کر کے آج کا مسلمان نہ صرف دین و دنیا سنوار سکتا ہے بلکہ ملک و قوم کی ترقی اور مسلم امہ کی شیرازہ بندی کے لئے بھی گراں قدر خدمات انجام دے سکتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال اپنی شاعری میں بھی نہایت دردمندی سے دعا کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا پیغام عام ہو جائے اور جوانوں کو اس پیغام پر عمل کی توفیق بھی بارگاہِ الٰہی سے عنایت ہو
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
excellent article …remind us of virtues we must possess as a Shaheen of Iqbal…