آخر کار وہ تاریخی صبح پاکستان میں طلوع ہو ہی گئی جب پہلی مرتبہ کسی جمہوری حکومت نے ایک جمہوری حکومت کو اقتدار سونپا ہے۔ یہ صبح جناب نواز شریف کے کل اقتدار میں آنے کا حلف اٹھانے کے ساتھ طلوع ہوئی۔
جمہوریت بالآخر بارآور ہو گئی ہے، اگرچہ اس کا پھل محض ‘مزید جمہوریت’ ہے۔ اس ممتاز ایوان میں آج بھی وہی لوگ بیٹھے ہیں جو گزشتہ مدت میں اسے رونق افروز کر رہے تھے، البتہ نشستیں اور قطاریں باہم تبدیل ہو جائیں گی۔ کل کے دوستانہ مخالفین آج ایک دوستانہ حکومت کی تشکیل میں شریک ہوں گے، اور کل کے صاحبِ اقتدار اس دوستی کا بدلہ مزید خلوص سے دینے کے لئے تیار ہیں۔ مزید وعدے، مزید نعرے، اور بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کا ایک گلدستہ جمہوریت کو پٹری سے اترنے سے بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اقتدار کی بحالی اور اس کے قیام تحفظ کی یقین دہانی میں کسی بھی چیز پر سمجھوتہ نہیں ہوا۔۔ سوائے اعتماد، شرافت، وقار، قانون اور اس جیسی چند بیکار چیزوں کے۔۔
آج جب ہم مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے افتتاحی بیانات سنتے ہیں؛ ان کے آئین کے حوالے سے اونچے وعدے، آئین کے صفحات کے مکمل طور پر قرآنی تناظر اور اس کے احکامات کی اصل روح میں رنگے ہونے کی یاد دہانیاں، اور اِس مرتبہ اس کے تحفظ کے مستحکم ارادے کے وعدے، یہ سب دیکھ کر ہم حیران رہ جاتے ہیں! اس حلف سے ہمیں ایک اور حلف یاد آتا ہے، جو آج سے صدیوں پہلے گیارہ بھائیوں نے اپنے بارہویں بھائی کو قتل کرنے کے لئے اٹھایا تھا، اور باہم وعدے کئے تھے کہ یوسف سے چھٹکارا حاصل ہو جانے کے بعد وہ سب نیک بن جائیں گے۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ باطل کی آبیاری سے بھلائی کے بیج نہیں اُگتے، اور لالچ کا گناہ نمی پاتے ہی پنپنے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ جمہوریت جس پر بے ایمانی، دھوکہ بازی اور شیشہ گری کے ذریعہ قبضہ کیا گیا ہے، کسی ٹھوس بنیاد پر کبھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔
وہی لوگ جنہیں ہم لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور ڈرون حملوں کی وجہ سے گزشتہ پانچ سالوں سے کوس رہے ہیں؛ وہی لوگ جو نہ تو ہمارے تعلیمی نظام کی بد ترین کارکردگی کی اصلاح کر سکے، نہ ہی گرتے ہوئے سماجی اور مذہبی معیار کی تعمیرِ نو کر سکے، اور نہ ہی ہمارے بد عنوانی میں ڈوبے ہوئے دفاتر میں کوئی تبدیلی لا سکے؛ وہی لوگ جنہوں نے ہندوستانی اور مغربی ذرائعِ ابلاغ کی تہذیبی آندھیوں اور ثقافتی یلغار کو ہمارے گھروں میں داخل کر کے ایک جعلی تاریخی داستان کے تانے بانے بُننے کا موقع فراہم کیا ہے؛ آج وہی لوگ اپنے پُرانے سُتے ہوئے چہروں پر نئی مسکراہٹیں لے کر اقتدار میں واپس آ گئے ہیں۔
پی کے کے ایچ مایوسیوں کا علمبردار نہیں، آخر یوسف کے بھائی بھی تو اُس کے بعد نیک بن ہی گئے تھے! لہذا ہم بھی ان نئی مسکراہٹوں اور شاندار وعدوں پر یقین کرنا چاہتے ہیں، اگرچہ یہ وعدے ہماری پارلیمنٹ جیسے تاریک ترین ایوان سے اور انہی زبانوں سے نشر ہو رہے ہیں جن کی طرف سے ہم جھوٹ کے عادی ہو چکے ہیں۔
شاید یہ ہمارے نو منتخب قائدین کو خیر مقدم کرنے کا موقع ہے، جو ہمیں آئندہ پانچ سالوں تک یاد دہانی کرواتے رہیں گے کہ ان کو اقتدار کے لئے خود ہم نے منتخب کیا ہے اور ان کے لئے ہماری پُر خلوص محبت میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پی کے کے ایچ معاشرے کے تمام شعبوں کو اور خاص طور پر ریاستی امور کے ماہر فاضل تجزیہ کاروں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس ووٹ کو آئندہ پانچ سالوں تک لوٹ مار کا مفت اجازت نامہ سمجھنے والوں کے خلاف حقیقی حزبِ اختلاف کی صورت میں سامنے آئیں۔ ہم شہری معاشرے (سول سوسائٹی) اور معلوماتی مراکز کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارا استحصال کرنے والوں** کا دوستانہ حزبِ اختلاف بن کر انہیں افراتفری اور انتشار کے لئے آزاد چھوڑ کر اپنی قوتِ تقریر اور زورِ قلم کی تذلیل اور زنگ لگنے کا باعث نہ بنیں۔
آئیے ہم اس پنج سالہ دور کو مسلسل سوالات اور احتساب کا دور بنائیں۔ آئیے ہم اپنے سوال کرنے کے جمہوری حق کو استعمال کر کے ڈرون حملوں اور دہشت کے متعلق سوال کریں، اپنی زمین پر غیر ملکی دخل اندازی کے بارے میں پوچھیں، اپنے اخباری چینلوں میں ہندوستانی مواد کا معاملہ اٹھائیں، یہ پوچھیں کہ جمہوریت ناخواندہ عوام کی کس طرح خدمت کرتی ہے، تباہ شدہ معیشت اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا سوال اٹھائیں، کشمیر اور افغانستان، اور گوادر اور اپنے فروخت شدہ جزیرے کے متعلق سوال کریں، بلوچوں اور کراچی والوں کے بارے میں پوچھیں، اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور شکستہ وقار کا حساب لیں۔۔
مسلم لیگ عرف نواز لیگ کا روشن پاکستان کا وعدہ عوام کے بے یقین ذہنوں میں بجلی کی ناقابلِ اعتماد فراہمی کی طرح دھندلا رہا ہے۔ تمام قوم توانائی جیسی بنیادی ضرورت کی عدم فراہمی کے باعث عجیب سی بے یقینی کا شکار ہو گئی ہے۔ بنیادی انسانی حالت کی یہ تنزلی عوام کی فکر کو اس قدر زوال پذیر کر دیتی ہے کہ ان کا اپنے اربابِ اقتدار کے ساتھ تعلق حکام کے لفاظیوں سے بھر پور وعدوں اور عوام کی طرف سے ان وعدوں کے مطالبوں کے درمیان ایک سطحی سی رسہ کشی تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ ‘روشن پاکستان’ میں روشنی کا یہ وعدہ اسی طرح مصنوعی اور نا پائیدار ہے جس طرح ہم ہائیڈرو الکٹریسٹی کی پیداوار میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو ایک مخصوص فکر کا عادی اور پابند بنا دینا انہیں ان حقیقی، گہرے اور بنیادی مسائل میں پھنسنے کی مایوسی سے بچاتا ہے جو آغاز سے ہی انہیں ایک مستقل اور مخصوص حیثیت میں پھانسنے کا باعث ہوئے ہیں۔ اونچے وعدوں کے ذریعے سے کی جانی والی سطحی لفاظی اس فریب کو برقرار رکھنے میں معاون ہوتی ہے، اور اب ہم نواز لیگ سے اسی فریب کو توڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے جناب نواز شریف نے کہا کہ “ہم سبھی کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور انہیں بھی ہماری خود مختاری اور آزادی کا احترام کرنا چاہئے۔ اب اس مہم کا اختتام ہو جانا چاہئے۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ “ڈرون حملوں کی اس یومیہ برسات کو رُکنا ہو گا۔” نیز انہوں نے بد عنوانی سے نمٹنے اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
پاکستانی عوام نے دانستہ یا نا دانستہ طور پر نواز لیگ کو ایک آزاد حکومت کی تشکیل کا موقع دے دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا جناب نواز شریف صاحب اس زبردست طاقت کا موجودہ نظام کو توڑنے میں استعمال کر کے اس نا اہل نظریے کو حیاتِ نو دیں گے جس کی بنیاد پر عوام کی تعلیم تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہے؟ یا وہ اس نظریے کی از سرِ نو تشکیل کریں گے جس پر ہماری پولیس اور عدالتی نظام کام کر رہا ہے؟ کیا وہ تمام تر حکومتی دفاتر سے بدعنوانی کی ثقافت کو نکال باہر کرنے کا پختہ ارادہ اور حوصلہ رکھتے ہیں؟ یا یہ وعدے عام لفاظی کا ہی ایک حصہ ثابت ہو کر رہ جائیں گے اور اقتدار سنبھالتے ہی آپ موجودہ حالت کو ہی غنیمت سمجھ کر محض جمہوریت کی مقدس گائے کے گُن گاتے ہوئے مزید پانچ سال گزار دیں گے؟