7 اکتوبر سنہ2001ء کو افغانستان میں امریکہ نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا، اس میں اس کا سب سے بڑا اتحادی برطانیہ تھا۔ جس وقت امریکی صدر جارج بش امریکہ کے تمام ٹی وی چینلوں پر براہ راست افغانستان پر جنگی حملے کا اعلان کر رہے تھے، ٹھیک اسی وقت برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلئیر بھی برطانوی عوام سے خطاب کرتے ہوئے اس جنگ میں شرکت کا اعلان کرتے نظر آئے تھے۔ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک برطانیہ تقریبا 37 بلین پاونڈ خرچ کر چکا ہے۔ سنہ 2001 ء سے لے کر اب تک کل 134,780 برطانوی فوجی افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، جبکہ افغانستان میں برطانیہ کے کل مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد 444 ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ افغانستان کو سالانہ 178 ملین پاونڈ کی امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔
گیلپ سروے کی رپورٹ کے مطابق 65 فیصد برطانوی شہریوں نے افغانستان پر حملے کی حمایت کی تھی، اس حمایت کے نتیجےمیں برطانوی افواج پہلے دن سے ہی افغانستان میں امریکی افواج کے شانہ بشانہ تھیں، اور نومبر سنہ 2001ء میں دونوں افواج نے ایک مشترکہ حملے کے نتیجے میں ہرات شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ تعداد کے حساب سے امریکہ کے بعد برطانوی فوجیوں کی تعداد افغانستان میں سب سے زیادہ ہے. اس وقت 9000 کے لگ بھگ برطانوی فوجی افغانستان میں تعینات ہیں، جبکہ اس بارہ سال کے عرصہ میں کل 134,780 برطانوی فوجی افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ برطانوی فوج اب تک افغانستان میں 37 بلین پاونڈ خرچ کرچکی ہے، جس میں سے آپریشنز سرانجام دینے کے لئے سالانہ 2.6 بلین پاونڈ مختص ہیں۔ ان اخراجات کو اگر تقسیم کیا جائے تو ہر برطانوی فوجی پر افغانستان میں سالانہ 288,889 پاونڈ خرچ ہو رہا ہے۔ سنہ 2006ء کے ایک تخمینہ کے مطابق افغانستان کے صوبہ ہلمند میں برطانوی فوج پر 15 ملین پاونڈ روزانہ خرچ آرہا تھا۔
افغانستان سے انخلاء کے اعلان سے لے کر اب تک برطانوی فوج کی 625 گاڑیاں واپس بھیجی جا چکی ہیں، اور سنہ 2014ء کے اختتام پر انخلاء کی تکمیل تک تقریبا 3000 گاڑیاں برطانیہ واپس چلی جائیں گی، جبکہ ہلمند میں کل 137 پوسٹوں کی تعداد کو بھی کم کرکے 13 تک محدود کردیا گیا ہے۔ برطانوی فوج کے افغانستان سے مکمل انخلاء پر تقریبا 300 ملین پاونڈ لاگت آئے گی۔
دہشتگردی کے خلاف افغانستان میں جاری جنگ میں برطانوی فوج کو 444 فوجیوں کا نقصان اٹھانا پڑاہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنہ 2001ء سے لے کر مارچ سنہ 2006ء تک برطانوی فوج کے صرف 5 فوجی مارے گئے تھے، لیکن جب سنہ2006ء میں برطانوی فوج کو طالبان کے گڑھ ہلمند میں تعینات کیا گیا تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مارے جانے والے 444 فوجیوں میں سے 401 فوجی لڑتے ہوئے مارے گئے جبکہ بقیہ 43 افغانستان میں ہی مختلف حادثات، بیماریوں وغیرہ کے باعث جاں بحق ہوئے۔ مرنے والوں میں 3 خواتین فوجی بھی شامل ہیں۔ جبکہ 6683 فوجیوں کو زخموں کی شدت کی وجہ سے فضائیہ کے ذریعے افغانستان سے باہر منتقل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ہر سال برطانوی فوجیوں کی خودکشی کی کوششوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، تازہ ترین رپورٹس کے مطابق سال 2012 کے دوران طالبان کے ہاتھوں مرنے والے برطانوی فوجی کم اور خودکشی کرنے والوں کی تعداد زیادہ دیکھی گئی ہے۔ BBC Panorama کے مطابق گذشتہ سال افغانستان میں لڑتے ہوئے 40 فوجی مارے گئے تھے، لیکن اس کے مقابلے میں 21 فوجیوں نے افغانستان میں تعیناتی کے دوران خودکشی کی جبکہ دیگر 29 خودکشی کرنے والے ایسے سابقہ فوجی ہیں جو افغانستان میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ برطانوی وزارت دفاع کی رپورٹ کے مطابق اب تک 11000 فوجی مختلف اقسام کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، خودکشی کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ان امراض کا شکار تھے۔
برطانوی فوج کا افغانستان میں قیام شہزادہ ہیری کے بغیر نامکمل ہے۔ شہزادہ ہیری دوبار افغانستان میں تعینات رہے، لیکن ان کی یہ تعیناتی برطانوی عوام کا حوصلہ بڑھانے کے لئے نمائشی طور پر ہی رہی۔ 28 سالہ ہیری کی، جن کو کیپٹن ویلز کے نام سے جانا جاتا ہے، اپاچی ہیلی کاپٹر کے ساتھ تصاویر میڈیا کی زینت بنتی رہیں، لیکن عملی طور پر وہ کسی بھی اہم مشن یا زمینی پٹرول میں حصہ نہیں لے سکے۔
افغانستان میں برطانوی فوج بری طرح ناکامی کا شکار ہوئی ہے، صوبہ ہلمند کے لوگ ان کو اپنے محسن کے طور پر دیکھنے کے بجائے ظالم وغاصب کے طور پردیکھتے ہیں، اور افغانستان میں تعینات برطانوی میجر خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان کی عملداری اپنی بیس کے 500 میٹر کے علاقے تک ہی قائم ہے۔ اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ برطانوی فوج کا ضرورت سے کہیں بڑا افسرانہ حجم ہے۔ اس وقت برطانوی فوج میں جنرل کے عہدے پر تعینات افراد کی تعداد برطانوی فوج کے زیر استعمال ہیلی کاپٹروں اور آپریشنل ٹینکوں سے زیادہ ہے، جبکہ برطانوی رائل بحریہ میں ایڈمرلز کی تعداد برطانوی بحریہ کے پاس موجود کل کشتیوں سے زیادہ ہے، اسی طرح برطانوی رائل فضائیہ میں اعلی عہدیداروں کی تعداد برطانیہ کے پاس موجود اپاچی حمہ آور ہیلی کاپٹروں سے زیادہ ہے۔ برطانوی فوج سے کہیں بڑی امریکی فوج کے پاس صرف 302 جنرل کے عہدے کے افسران ہیں، جبکہ اس کے مقابلہ میں برطانوی فوج کے پاس 255 جنرل کے عہدے کے افسران ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل کی فوج، جس کی تعداد تقریبا 170,000 ہے جو تقریبا برطانوی فوج کے برابر ہے، لیکن اسرائیل کے پاس صرف ایک لیفٹیننٹ جنرل، 12 میجر جنرل اور 35 بریگیڈئیر جنرل ہیں۔ جبکہ ہلمند جہاں صرف 9000 کے لگ بھگ برطانوی فوج تعینات ہے وہاں چار میجر جنرل اور دس بریگیڈئیر درجے کے افسران موجود ہیں۔ برطانوی فوج میں افسران کی کثرت کے باوجود منصوبہ بندی، تزویراتی سوچ اور مستقبل سے ہم آہنگ لائحۂ عمل کا شدید ترین فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی ایک مثال اس وقت سامنے آئی جب دریائے ہلمند پر کاجکی ڈیم (جس کے ذریعے سے جنوبی ہلمند کو بجلی فراہم کرنا مقصود تھی) کی واحد وسیع و عریض ٹربائن کو منتقل کرنے کے لئے دشمن کے 100 میل کے علاقے میں سفر کر کے جانا تھا، اس کام کو سرانجام دینے کے لئے 4000 برطانوی فوجیوں نے دن رات ایک کیا، لیکن وہ ٹربائن کبھی بھی مکمل نہیں ہوسکی۔ ایک تو ڈیم سے آگے جنوبی ہلمند تک کوئی ٹرانسمیشن لائن موجود نہیں تھی، دوسرے کوئی مقامی تجربہ کار آپریٹر میسر نہیں تھا جو اس سارے نظام کو چلا سکے۔ عسکری تجزیہ نگاروں کے مطابق ناکامی کی دیگر وجوہات میں سرفہرست ہر 6 ماہ بعد گھر جانے کی اجازت ہے، جس کی وجہ سے کام کا تسلسل اور روانی متاثر ہوتی ہے۔
افغانستان میں برطانوی فوج کے بارہ سال قیمتی جانوں اور کھربوں پاونڈ کے ضیاع کی منہ بولتی تصویر ہیں، آنے والا ہر دن اس تصویر میں مزید رنگ بھرتا چلا جائے گا۔ اور سنہ 2014ء میں یہ دوسری بار ہوگا کہ برطانیہ افغانستان سے ناکام ونامراد اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے بغیر وطن لوٹے گا!