میں ایک عام پاکستانی ہوں، جسے اس بات نے مضطرب کر رکھا ہے کہ نفاذِ شریعت کی خاطر نہتے عوام کا خون بہانا کیونکر جائز ہے؟ جبکہ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے خلاف جنگ میں بھی جو ضابطۂ اخلاق بتایا اس میں حکم دیا کہ سر سبز کھیتیاں اور باغ مت اجاڑو، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل مت کرو
میں ایک پاکستانی ہوں۔ پچھلے دنوں آنے والی دو متضاد خبروں نے مجھے حیرت اور دکھ میں مبتلا کر رکھا ہے۔
خبریں کچھ یوں ہیں:
“طالبان کی جنگ بندی پر مشروط آمادگی”
“23 مغوی اہلکاروں کو قتل کر دیا گیا: تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی کا دعویٰ”
دہشت گردی کا یہ عفریت جس نے آٹھ سال سے اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کا مرکزی کردار تحریکِ طالبان پاکستان ہے اور براہِ راست متاثر ہونے والوں میں پاکستانی عوام اور افواجِ پاکستان شامل ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے سنہ2002ء میں اپنی کارروائیوں کا آغاز اس وقت کیا جب پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں غیر ملکی عناصر کے خلاف کارروائیاں شروع کیں، اور سنہ 2004ء میں ایک تنظیم کی شکل اختیار کی جس کا اعلان سنہ 2007ء میں کیا گیا۔
تحریکِ طالبان پاکستان جسے ٹی ٹی پی بھی کہا جاتا ہے، اپنے قیام سے ہی اس بات کا بار ہا اعلان کر چکی ہے کہ وہ پاک فوج کے خلاف اور اس حکومت کے خلاف کارروائیاں تب تک جاری رکھے گی جب تک کہ پاکستان غیروں کی جنگ سے نکل نہیں جاتا اور مُلک میں شریعت کا نفاذ نہیں ہو جاتا۔ ان کارروائیوں میں اب تک 50 ہزار لوگ جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
دہشت گردی کے اس بھوت سے نجات پانے کے لیے اے پی سی میں طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔ مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مذاکرات کی میز الٹ دی گئی، جبکہ مذاکرات کے نئے دور میں دونوں طرف سے نامزد کمیٹیوں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
طالبان سے مذاکرات کے حامی اور مخالف، دونوں آراء رکھنے والوں کی ملک میں کمی نہیں۔ جہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپریشن کی صورت میں کامیابی کے امکانات 40 فیصد ہیں، وہیں کچھ پاک فوج کے جاں بحق ہونے والے سپاہیوں اور افسروں کو شہید ماننے پر تیار نہیں، کچھ کا اصرار ہے کہ امریکی ڈرون حملوں میں کوئی کُتا بھی مرے تو اسے شہید سمجھا جائے گا جبکہ کچھ نامی گرامی حضرات یہ استفسار کرتے پائے جاتے ہیں کہ کیا پاک فوج کا مورال شیشے کا بنا ہوا ہے؟ کچھ کا کہنا ہے کہ آپریشن کی آڑ میں پاک فوج کو قبائلی علاقوں میں الجھانا مقصود ہے۔ کچھ فی الفور آپریشن چاہتے ہیں کہ ان کے نزدیک اب اس مسئلے کا کوئی اور حل قابلِ عمل نہیں رہا، جبکہ عوام حیران وپریشان ہے کہ کس کی رائے کو صائب مانا جائے؟
مذاکرات کے لئے ٹی ٹی پی کی شرائط میں شریعت کا نفاذ اور فوج کا قبائلی علاقوں سے انخلا سرِ فہرست ہیں۔ گویا نہتی عوام پر خود کش حملے اس لئے کیے جاتے ہیں اور ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کا مقصد نفاذِ شریعت ہے تاکہ اس ملک کی اور حکومت کی اصلاح کی جا سکے۔ ہر بار اس مطالبے کے جواب میں مجھے قرآن کی ایک آیت شدت سے یاد آنے لگتی ہے:
“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرتے پھرو تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔”[سورۃ البقرۃ۔ آیت 11]
طالبان کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کیلئے نامزد مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا بلکہ “دھمکانا” تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو اس صورت میں ٹی ٹی پی کے پاس پانچ سو خودکش بمبار خواتین ہیں جو حملوں کے لئے استعمال کی جائیں گی۔
میں ایک عام پاکستانی ہوں، جسے اس بات نے مضطرب کر رکھا ہے کہ نفاذِ شریعت کی خاطر نہتے عوام کا خون بہانا کیونکر جائز ہے؟ جبکہ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے خلاف جنگ میں بھی جو ضابطۂ اخلاق بتایا اس میں حکم دیا کہ سر سبز کھیتیاں اور باغ مت اجاڑو، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل مت کرو۔
پھر یہ کیسی جدوجہد ہے؟ جبکہ قرآن میں خدا کا فرمان ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں پھر کیلاش وادی کے لوگوں کو کیونکر دھمکیاں دی جا سکتی ہیں؟ اور نفاذِ شریعت کی خاطر اپنے کلمہ گو بھائیوں کا خون بہانا کیسے جائز ہے؟
“حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکوں کی ایک قوم پر بھیجا اور وہ دونوں ملے (یعنی آمنا سامنا ہوا میدانِ جنگ میں) تومشرکوں میں ایک شخص تھا، وہ جس مسلمان پر چاہتا اس پر حملہ کرتا اور مار لیتا۔ آخر ایک مسلمان نے اس کو غفلت (کی حالت میں) دیکھا۔ اور لوگوں نے ہم سے کہا (کہ) وہ مسلمان سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر جب انہوں نے تلوار اس پر سیدھی کی تو اس نے کہا لا الٰہ الا اللہ لیکن انہوں نے اسے مار ڈالا، اس کے بعد قاصد خوشخبری لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس سے حال پوچھا۔ اس نے سب حال بیان کیا یہاں تک کہ اس شخص کا بھی حال کہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان (حضرت اسامہ) کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے کیوں اس کو مارا؟ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دی، فلاں اور فلاں کو مارا اور کئی آدمیوں کا نام لیا۔ پھر میں اس پر غالب ہوا، جب اس نے تلوار کو دیکھا تو لا الٰہ الا اللہ کہنے لگا۔ رسول اللہ نے فرمایا تم نے اس کو قتل کر دیا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے! آپ نے فرمایا تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ پھر آپ نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا اور یہی کہتے رہے کہ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟”
طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام، اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا مگر اس وقت حبیب جالب صاحب کے یہ اشعار بہت شدت سے یاد آ ر ہے ہیں
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
Excellent
I am not a good Muslim but even I wonder about the definition of a Muslim when I see TTP calling themselves Muslim.Well, I think they wonder the same about common people like myself.Maybe we find a solution if everyone stops judging others in the name of Islam without knowing the true spirit of Islam himself.
I am quite confused over this subject..Hats off to Alina for at least having a clear concept..Well done Doc!