اس سب کے ساتھ ساتھ بھارت میں اجمل قصاب کا کیس لڑنے والے وکلاء کو بهی ہراساں کیا جاتا رہا۔ ممبئی کی بار ایسوسی ایشن نے مشترکہ طور پر قرارداد کے ذریعے اجمل قصاب کے دفاع کا کیس نہ لینے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ جن وکلاء نے قصاب کا کیس لڑنے کی کوشش کی انہیں بهی ہندو شدت پسند تنظیم شیو سینا کی طرف سے بے پناہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
26/11 کو ممبئی میں ہونے والی ہولناک دہشت گردانہ کارروائیوں میں نامزد، پاکستان سے تعلق رکهنے والے مرکزی ملزم اجمل قصاب کو مختلف مقدمات کی زد میں لا کر 21 نومبر سنہ2012ء کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ حملوں میں ملوث ملزمان میں سے زندہ بچ جانے والے واحد حملہ آور کی پهانسی بے شمار وجوہات کی بنا پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست ہونے کے دعوے دار بهارت کے مروجہ نظامِ انصاف پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
اجمل قصاب پر عائد الزامات:
3 مئی سنہ2010ء میں قصاب پر قتل، بھارت کے خلاف جنگی کارروائی اور دهماکہ خیز مواد رکهنے سمیت 86 مختلف جرائم کے الزامات لگائے گئے۔ 11000 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ اور 650 گواہان کی موجودگی میں 332 دنوں میں اس کیس کی کاروائی مکمل کی گئی۔ 6 مئی سنہ2010ء کو ممبئی کی عدالت نے قصاب کو پانچ مقدمات میں عمر قید اور چار مقدمات میں موت کی سزا سنائی. ممبئی ہائی کورٹ نے 21 فروری سنہ2011ء کو اس سزا کی توثیق کردی۔ 29 اگست سنہ2012ء کو سپریم کورٹ نے بھی قصاب کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ 23 اکتوبر سنہ2012ء کو بھارتی وزارتِ داخلہ نے رحم کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد معاملہ بھارت کے صدر پرنب مکھرجی کے حوالے کیا گیا، 5 نومبر سنہ2012ء کو انھوں نے بھی رحم کی درخواست مسترد کر دی اور پهر بالآخر 21 نومبر سنہ2012ء کی صبح ساڑهے سات بجے اجمل قصاب کو پهانسی دے دی گئی۔
قصاب کا اقبالِ جرم اور پهر اپنے بیان سے انکار:
اجمل قصاب نے 20 جولائی سنہ2009ء میں ارتکابِ جرم کا اعتراف کیا تها، تاہم 18 دسمبر سنہ2009ء کو کورٹ میں دیے جانے والے بیان کے مطابق اس نے سارے الزامات پولیس کے تشدد ودباؤ کی وجہ سے قبول کیے تهے اوراسے اس تمام معاملے میں پهنسایا گیا تها۔ قصاب کا یہ بهی کہنا تها کہ اسے حملوں سے 20 دن قبل ممبئی پولیس نے مہاراشٹر سے اغوا کیا اور بعد ازاں ممبئی میں پیش آنے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کا مرکزی ملزم ظاہر کردیا، اور یہ کہ تصاویر میں رائفل تهامے حملوں کے مقامات پر نظر آنے والا شخص دراصل وہ نہیں کوئی اور ہے۔
اس حوالے سے پاکستانی وکیل سی ایم فاروقی کا بیان بهی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ سنہ2006ء سے قبل بھارتی افواج نے نیپالی افواج کی مدد سے کٹهمنڈو سے تقریبا دو سو لوگوں کو اغوا کیا تھا جن میں اجمل قصاب بهی شامل تها۔ نیپال میں یہ لوگ قانونی طریقے سے موجود تهے مگر بھارتی ایجنسیاں پاکستانیوں کو حراست میں لے کر ممبئی حملوں جیسے واقعات میں ملوث ظاہر کرتی ہیں۔ اجمل قصاب بهی کسی کاروباری سلسلے میں نیپال کے دارالحکومت میں موجود تها اور اس کی بیجا قید کے سلسلے میں تحقیقات کی درخواست نیپال کے سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے جس میں نیپالی افواج اور انڈین ہائی کمیشن سے جواب طلب کیا گیا ہے، اگرچہ نیپالی حکومت نے اس خبر کی تردید کی ہے۔
یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ کیا بھارت کسی بهی شخص کو اغوا کرکے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ثابت کرسکتا ہے؟
ممبئی حملوں کی پاکستان میں تحقیقات اور شواہد فراہم کرنے میں بھارت کی سرد مہری:
ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان میں چلنے والی تحقیقات میں ایک اہم پیش رفت اس وقت دیکهنے میں آئی جب پاکستانی حفاظتی اداروں نے یکے بعد دیگرے سات افراد کو ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں حراست میں لیا جن میں آزادی پسند گروپ لشکرِ طیبہ سے تعلق رکهنے والا زکی الرحمان لکهوی بهی شامل تها اور اس پر اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔ اس بارے میں مزید چهان بین کیلئے پاکستانی اہلکاروں نے بھارت سے اجمل قصاب تک رسائی کا مطالبہ کیا تاکہ پاکستان میں موجود آزادی پسند تنظیموں کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ پاکستانی اہلکاروں کی ٹیم نے بھارتی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ قصاب کے اقراری بیان، قصاب کی جانب سے پاکستانی ہائی کمیشن کو لکها جانے والا خط اور اس سمیت بهارتی میڈیا پر دکهائی جانے والی تصاویر پرکھنے کے بعد قصاب سے تفتیش کا مطالبہ بهی کیا، کیونکہ وہ واحد شخص تها جو پاکستان میں موجود آزادی پسند تنظیموں سے اپنے تعلقات کے متعلق واضح معلومات فراہم کرسکتا تها۔ اس وقت کے پاکستان کے وزیرِ خارجہ رحمان ملک نے بهی بارہا بھارت سے اجمل قصاب تک رسائی مانگی۔ ذرائع کے مطابق رحمان ملک نے انڈین ہائی کمشنر شرت سبهروال سے ملاقات کے دوران بهی اس بات پر زور دیا کہ قصاب سے پوچھ گچھ کے بعد ہی اسے پاکستان میں چلنے والے مقدمہ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت کی وزیرِ اطلاعات شیریں رحمان نے بهی پاکستانی تفتیشی اہلکاروں کے لئے ممبئی میں حملوں کے مقام تک رسائی کی اجازت طلب کی، مگر بھارتی اہلکاروں نے پاکستان کے اس مطالنے کو یکسر نظرانداز کر کے ‘ناقابلِ ادائیگی’ (untenable) قرار دیا۔ اس دوران جب مارچ سنہ2012ء میں پاکستان سے عدالتی کمیشن بھارت میں قانونی کارروائی کے لئے پہنچا تو اسے نہ تو اجمل قصاب سے ملنے دیا گیا اور نہ ہی اسے گواہان سے جرح کرنے کی اجازت دی گئی۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو اجمل قصاب تک براہِ راست رسائی نہ دینے سے ممبئی حملہ کیس کے قانونی معاملات میں جہاں ایک طرف بے شمار قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں وہیں بھارتی تحقیقات اور ڈوسئیرز کے مصدقہ ہونے پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے۔ اور بالآخر جب 21 نومبر سنہ2012ء کو اجمل قصاب کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا تو ممبئی حملوں کی ان قانونی پیچیدگیوں اور سوالات نے پاکستانی عدالتوں میں زیرِ سماعت کیس کو مزید سست رفتار بنا دیا۔ ستمبر 2013ء میں جوڈیشل کمیشن کو گواہان سے جرح کی اجازت تو دے دی گئی لیکن ممبئی حملوں کا اکلوتا کرتا دھرتا اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا جو ان حملوں کی حقیقت سے دنیا اور پاکستان کو آشکارا کرتا۔
اجمل قصاب کی پاکستان سے قانونی مدد کی اپیل:
اجمل قصاب کی جانب سے پاکستان کو موصول ہونے والی قانونی مدد کی اپیل پر مشہور انسانی حقوق تنظیم کے رہنما انصار برنی نے بهی قصاب سے ملنے کی کوشش کی اور زور دیا کہ کسی آزاد خود مختار ادارے کی جانب سے سے قصاب پر مقدمہ چلایا جائے اور بھارت قصاب کے خلاف موجود شواہد سے پاکستان کو آگاہ کرے۔ قصاب کے اقبالِ جرم کو اس وقت تک نہیں مانا جاسکتا جب تک کہ شواہد اس کے اس واقعے میں ملوث ہونے کی گواہی نہ دیں، چونکہ بھارت کی حراست میں دیے گئے اقبالی بیان کی قانونی حیثیت مشکوک ہے۔ مگر اس موقعے پر بهی بھارت نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا اور انسانی حقوق کے کسی بھی پاکستانی یا بین الاقوامی ادارے کو ممبئی حملوں کے واحد حملہ آور سے ملنے نہیں دیا گیا۔
قصاب کا کیس لڑنے والے وکلاء اور شیو سینا کی مزاحمت:
اس سب کے ساتھ ساتھ بھارت میں اجمل قصاب کا کیس لڑنے والے وکلاء کو بهی ہراساں کیا جاتا رہا۔ ممبئی کی بار ایسوسی ایشن نے مشترکہ طور پر قرارداد کے ذریعے اجمل قصاب کے دفاع کا کیس نہ لینے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ جن وکلاء نے قصاب کا کیس لڑنے کی کوشش کی انہیں بهی ہندو شدت پسند تنظیم شیو سینا کی طرف سے بے پناہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے وکیل اشوک ساروگی اور ایڈوکیٹ انجلی وگمارے کے نام نمایاں ہیں جن کے گهروں کے باہر شیو سینا کے ممبران نے مظاہرے کیے اور پتهر بهی برسائے۔ اجمل قصاب کی بھارت میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن سے کی جانے والی قانونی مدد کی اپیل اور اس کے ساتهی دہشت گرد کے جسد کی حوالگی کی درخواست پاکستانی اہلکاروں نے قبول تو کی مگر اس میں مزید پیش رفت دیکهی نہ جاسکی۔ دفاع کا حق دنیا کے ہر ملک میں ہر ملزم کو حاصل ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اجمل قصاب کو اس بنیادی حق سے محروم رکھنے کی ہر کوشش کی گئی۔
بھارت نے جن خفیہ ذاتی مقاصد کے لئے ایک کمزور ترین کیس اور کمزور ترین شواہد کی بنا پر ایک پاکستانی شہری کو پھانسی پر چھڑا کر اپنی عوام کو مطمئن کر لیا، وہ تو شاید پورے ہو گئے ہوں، لیکن کیا وہ اپنی سرزمین پر ہونے والے بھیانک اور بے رحمانہ حملے کے اصل مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکا ہے؟ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک آزاد ملک کی خود مختاری کو چیلنج کرنے کے اس عمل کا آئندہ کے لئے سدِ باب ایک ملزم کو ناکافی ثبوتوں کے ساتھ پھانسی پر چڑھا کر ہو سکتا ہے؟ اور کیا بھارت میں ہونے والے کسی بھی جرم کے لئے کسی پاکستانی کو بلا ثبوت نہ صرف قید بلکہ پھانسی بھی دی جا سکتی ہے؟ نیز اس قسم کے حالات میں موت کے گھاٹ اتارے جانے والے کسی پاکستانی شہری کا اپنے ملک کی عوام اور خاص طور سے حکومت پر کیا حق بنتا ہے؟ اس قسم کے حالات میں دشمن ملک کے ہاتھوں ظالمانہ طور پر مارے جانے والے ایک پاکستانی شہری کے تئیں ہمارے ملک کی عوام اور حکومت پر کیا کوئی فرض عائد نہیں ہوتا؟ بھارت عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کروانے کی غرض سے ایک پاکستانی شہری کو ناحق پھانسی دے سکتا ہے تو کیا پاکستان اپنے ایک شہری کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتا؟
He does not look Pakistani…
Not even in remotely…
He looks South Asian Indian not West / Central Asian.
look for his youtube video – seeking apology from BHAGWAAN