پاک بھارت تعلقات کا ایک مخصوص پیٹرن ہے- پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک بھارت اور پاکستان کے درمیان لڑی گئی حقیقی جنگوں کے علاوہ اوسطاً تقریباً ہر دو چار سال بعد ایک امکانی جنگ کے بادل آسمان پر چھاتے رہے ہیں اورتلخی بڑھتے بڑھتے معاملہ اس نہج پر پہنچ جاتا ہے کہ دونوں فریق جنگ سے فقط چند قدم کے فاصلے پر شمشیربےنیام تھامے بس وار کرنے کو تیار کھڑے نظر آتے ہیں اور بڑی عالمی طاقتوں کی مداخلت سے فوری بربادی کا خطرہ ٹلتا ہے ، پھر کچھ سالوں کے لیے نسبتاً ٹھنڈ اور سکوت چھا جاتا ہے جس کے بعد دونوں جانب سے توبہ تلہ کی آوازیں بلند ہوتی ہیں”امن کی آشائیں” سب کچھ بھلا کر آنچل پھیلائے محبت کے گیت گاتی ہیں – مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے- بات چیت اور افہام و تفہیم کی فضا قائم ہوتی ہے- کانوں کو جو بھلے لگتے ہیں وہ استعارے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ عرصہ جاری رہنے والی بے مقصد مذاکرتی ٹک ٹک شروع ہوتی ہے اس دوران آخر کار وہ مقام آہی جاتا ہے جواصل وجۂ نزع ہے یعنی پاکستان کا بھارت کا پڑوسی ہونا-وہ بھارت جو آج بھی اپنی سرحدیں افغانستان سے رنگون تک دیکھتا ہے اور جس کے اپنے ہر پڑوسی کے ساتھ نہ ختم ہونے والے تنازعات ہیں- چاہے وہ چین ہو یا نیپال یا خود بھارت ہی کی سازش کے نتیجہ میں پیدا ہونے والابنگلہ دیش۔ پاک بھارت تعلقات کے پس منظر میں بھارتی زعماء کی یہی ذہنی کج روی معاملات کی خرابی کا بنیادی سبب ہے- بات چیت سے فرار اور حل طلب معاملات سے پہلو تہی، بےمقصدسفارتی بد زبانی اور سرحدی کشیدگی بڑھانے کی سلسلہ وار روایتی بھارتی ہٹ دھرمی قصہ کو چشم زدن میں مذاکراتی میز سے میدان جنگ کی جانب لے جاتی ہے جس کے بعد خطے میں فوراً ہی از سرنو امکانی جنگ کا مون سون پلٹ آتا ہے ،جن بادلوں میں اکثر اوقات اگرچہ گرج چمک تو بہت ہوتی ہے پر واقفانِ حال کو ماضی کے تجربوں کے پیش نظر ان بادلوں میں برسنے کا دم ذرا کم ہی دِکھتا ہے۔
ماضی کے بر عکس اس بارآثار اور قرائن کچھ اور کہتے نظر آتے ہیں-پاکستان میں بھارتی حمایت یافتہ شہری دہشت گردوں کی ٹوٹتی کمر, بلوچستان کے بہتر ہوتے حالات ، پاک افغان سرحدوں پر جاری کشیدگی, ضرب عضب کے نتیجے میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں محدود سے محدود تر ہوتے شدت پسند بھارتی اثاثوں کی افغانستان منتقلی اور افغانستان میں مُلا عمرکے بعد جنم لیتی اندرونی کشمکش کی صورتحال پھر ادھر اس تمام صورتحال کے تناظر میں قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان منسوخ ہونے والی ملاقات اور اسکے پس منظر میں پاک بھارت تعلقات کی مستقبل کی منظر کشی کافی فکر انگیز حقائق کی جانب اشارہ کرتی نظر آتی ہے۔خارجہ امور بالخصوص پاکستان کے حوالے سے کانگریسی حکومتوں کے ڈھکے چھپے روایتی دوغلی پالیسی کے طرز عمل کے بعد اب بھارتی سماج سیاسی سطح پرپاگل پن کے ارتقائی مراحل طے کرتا اندھی انتہاء پسندی کے کندھے پر سوار ہو کر بی-جے-پی اور نریندر مودی جیسے جنونیوں کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔
سرحدی علاقوں میں جاری مسلسل بھارتی جارحیت اور اسکے نتیجے میں ہوتا شہری آبادی کا نقصان جنگی جنون کو ہوا دینے کی بھارتی خواہش کا آئینہ دار ہے ۔ بی۔جے۔پی کی قیادت کے دماغ میں سمایا ہوا عالمی طاقت ہونے کا خناس اس مرض کی بنیادی وجہ ہے۔ بے شک کچھ عوامل امکانی محدود جنگ کے لیےبھارتی پالیسی سازوں کو اپنے نقطئہ نظر سے سازگارنظر آتے ہیں اوربظاہر حالیہ امن شکن اقدامات کی روشنی میں وہ سنجیدگی سے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی سوچ میں مبتلا لگتے ہیں مثلاً بھارتی سمھجتے ہیں کہ بہتر بھارتی اقتصادی حالت, عمومی عالمی رائے عامہ میں پایا جاتا پاکستان کے خلاف ایک منفی تاثر, بھارتی افواج کی ایک محدود روایتی جنگ کی صلاحیت کے حوالے سے جاری عسکری تیاری , کشمیر کے بعد اب مشرقی پنجاب میں انگڑائی لےکر جاگتی آزادی کی تحریک , ان تحاریک کو پاکستان کی جانب سے فراہم کی جاتی سفارتی اور اخلاقی مدد اور سب سے بڑھ کر اپنی تمام تر اندرونی داخلی کمزوریوں کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کا قدیم بھارتی طرز عمل جیسے عوامل انہیں پاکستان کو “سبق سکھانے” کےلیے کسی بھی محدود فوجی کارروائی کا حق دیتے ہیں۔ ان نکات کوبنیاد بنا کر بھارتی پالیسی سازوں نے ایک تیار کیس پچھلے ستر سالوں سے پاکستان کے خلاف بنا رکھا ہے جس میں وہ ہر بارحالات کے مطابق تھوڑی بہت کمی بیشی اور چھان پھٹک کے بعد دہشت گردی کے کسی گھناؤنے واقعہ کا تڑکہ لگا کر، جس میں بھارتی سورما خود اپنے شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہیں ، وہ ہر موزوں وقت پر جھوٹی مظلومیت کا واویلا اور بدلے کے طور پر خطے میں شدید حربی تناؤ کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں- مارچ سنہ دو ہزار میں امریکی صدر کلنٹن کے دورۂ پاکستان سے قبل کشمیر میں کیا گیا پینتیس سکھوں کا قتل عام اور حالیہ دنوں میں گھڑا گیا گواردسپور کا واقعہ ان مثالوں میں سے چند ایک ہیں –
بھارتی عسکری و سیاسی قیادت اور انتہاپسند قوم پرست طبقوں میں یہ خیال روز بروز جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مستحکم ہوتا پاکستان ان کے کشمیر سمیت دیگر تصفیہ طلب علاقائی مسائل کے “دل پسند” طریقۂ حل کے اطلاق کے لیے لوہے کا چنا بنتا جارہا ہے- پاکستان جو ابھی علاقائی غلبے کے جارح بھارتی ڈاکٹرائن کے نفاذ کی راہ میں میں رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے اپنے طول وعرض میں بتدریج قائم ہوتا امن وامان اور اسکے نتیجے میں اقتصادی راہدری جیسے میگا پروجیکٹس کی تکمیل کے امکانات کے بعد اقتصادی طور پر مستحکم ہو کریقیناً علاقائی چوہدری بننے کی عشروں سے قائم دیرینہ بھارتی خوش فہمی کو صرف نیند کے لمحات کی بھیگی راحت تک ہی رہنے پر محدود رکھے گا-
پروپیگنڈے کی سب سے زہریلی شکل وہ ہے جو شروع تو آپ دشمن کے لیے کریں لیکن اسکا تواتر سے ابلاغ خود آپ کو اس جھوٹ پر یقین کرنے پر مجبور کردے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کے ساتھ یہی ہوا, اطالوی و جاپانی اسی کذب کا شکار رہے اور آج بھارت کا بھی یہی المیہ ہے- بیرونی دنیا کے لئے چمکتے انڈیا کا نعرہ لگاتے لگاتے بھارتی معاشرہ نرگیسیت اور خود پسندی کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے- اور اسے اپنے معاشرے میں ارد گرد پھیلی ہوئی افلاس بھوک اور غربت نظر نہیں آرہی- عام بھارتی آبادی کی بڑی اکثریت بالی ووڈ کے طلسم کا شکار ہو کر واقعی اپنے آپ کو عالمی طاقت سمھجنے لگے ہیں -ان صفحات سے بھارتی حکمرانوں کو کئی بار یہ پیغام دیا جاچکا ہے کہ پاکستان کی جانب سے امن کی خواہش کا اظہار قطعی کسی کمزوری کا مظہر نہیں – پاکستان برابری کی سطح پر تمام معاملات کو حل کرنے کا خواہش مند ہے لیکن پہلے آپ کواپنے ذہن سے برتری کا کیڑا نکالنا ہوگا- مسئلۂ کشمیر کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق حل کرنا ہوگا ,پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی بند کرنا ہوگی اور پاکستان میں گڑبڑ پھیلانے والے عناصر کی پشت پناہی چھوڑنا ہوگی – بےشک بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی تلاش دونوں ملکوں کے عوام کے بہتر مستقبل کی ضرورت ہے لیکن اگر آپ پھر بھی توپ وتفنگ ہی آزمانے پر مضر ہیں اوراپنی فلم نگری میں تراشی ہوئی خود ساختہ احمقوں کی جنت سے باہر نکلنے سے انکاری اور “فینٹم” کے تعاقب میں آنے پر اسراری ہیں تو ظالم حقیقت کا یہ جملہ ضرور یاد رکھیں “یہ جو بم ہے اس میں بڑا دم ہے” آزمائش شرط ہے-
India is a threat to Pakistan – end of but in historic Hindu way plays the victim. It is the wolf dressed up in sheep clothing.
India has marketed herself and her culture well tot he world a far cry from the actual ground realities in India and she has sympathy.
We have been purposely demonised and elevated to the perpetrator status thanks tot he incompetence of the Zardari government that sat on the fence and their bottoms while The nation, Pakistani culture, heritage and people were being massacred and defamed globally.
The damage has been done and will take time to change the perception and given the Hindu & Zionist nexus the Indian misinformation against Pakistan has gone viral.
We need to be a little more savvy in our communications and not sit silent when Indian atrocities against are left unabated and unchallenged. Sartaj Aziz has done well keeping the pressure on India and this must not stop. India travels the world rallying support but where is Pakistan doing the same.
Pakistan really needs to emphasise its foreign policy but invest in better communications and information to not only promote our heritage from Indus Valley to Mughals to modern day Pakistan but also the truth about India.
At the border it is high time Pakistanis are relocated and reimbursed financially and bring in more preventive measures and bigger guns and hit the Indians as hard as you can this is the language this Hindu zealots in power understand.
Bigger guns and bigger casualties will stop Indian unprovoked firing.
Let us not mince any words because what is happening is a low intensity war against Pakistan waged by India.
Until Pakistan does out call out a spade as a spade your response will never be measured and lacking.
While you can expect any thing idiotic from Hindu fanatics’ government led by an infamous terrorist Modi, all the power posturing by targeting civilian population at the LoC by the Indian military seems aiming more at blackmailing international community for forcing Pakistan to give in to Indian demands. Even these Hindu terrorists who are currently ruling India know the consequences of an armed conflict between the two nuclear countries. They have in the past used similar blackmailing tactics to pressurize Pakistan through the West, especially USA, with some success. The logic is indeed simple: we (Indian government) have such and such concerns and we are willing to risk nuclear war unless international community plays its role in addressing our concerns. Pakistan needs to follow a well thought-out strategy to foil slumdogs blackmailing. RAW has long been using terrorism against the people of Pakistan. We need to mobilize international community by sending special envoys to world capitals to expose Indian policy of using terrorism as state policy against Pakistan. We also need to tell the world that the people of Indian occupied J&K cannot be allowed to live forever under illegal Indian occupation against the clear violation of UN resolutions. There won’t be any peace while occupying slumdog soldiers keep killing the people in the occupied J&K on daily basis. If Indians have concerns, the people of J&K and Pakistan have more grave concerns against India. This time around, it is not going to be one way traffic for removing concerns of one side while forcing the other to live with their unaddressed concerns forever.