ماہرین کے مطابق مینار کی بلندی تقریباً 196 فٹ ہے، مگر کوئی پیمانہ ایسا نہیں جو ان حوصلوں اور ولولوں کو ماپ سکے جن کےذریعے ایک قوم نے سینکڑوں برسوں پر محیط غلامی سے آزادی تک کا فاصلہ محض سات سالوں میں طے کر لیا۔
سرزمینِ لاہور جہاں مغلوں کا تعمیر کردہ قلعہ ہے تو عالمگیری مسجد کے محراب ومنبر بھی، گوردوارہ ہے تو مقبرۂ جہانگیر کے چار مینار بھی، اور انسینکڑوںبرس پرانی تاریخی عمارات کے درمیان ایک نسبتاً نیا مینار بھی اسی لاہور میں پوری شان سے ایستادہ ہے۔
مینارِ پاکستان
مینار کی تعمیر کو نصف صدی کا عرصہ بھی مکمل نہیں ہوا، مگر یہ برِ صغیر پاک وہند میں مسلمانوں کے عروج وزوال اور ارتقاء کی ایک علامت ہے اور ہماری تاریخ کا ایک سنگِ میل اور وہ نشانِ خیر ہے جہاں ایک قوم نے فیصلہ کیا کہ اب اسے عرصۂ ظلم وجبر میں شمشیروں اور تدبیروں کے بجائے ذوقِ یقیں پیدا کر کے غلامی کی زنجیروں کو کاٹ پھینکنا ہے۔
ماہرین کے مطابق مینار کی بلندی تقریباً 196 فٹ ہے، مگر کوئی پیمانہ ایسا نہیں جو ان حوصلوں اور ولولوں کو ماپ سکے جن کے ذریعے ایک قوم نے سینکڑوں برسوں پر محیط غلامی سے آزادی تک کا فاصلہ محض سات سالوں میں طے کر لیا۔
تاریخ کا سبق ہے کہ ہر کمال کی قسمت میں زوال ہے، مسلمانوں کا سات سو سالہ شان دار دورِ اقتدار سنہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں خاک ہو گیا اور تیموری خاندن کے آفتابِ اقبال پر غلامی نے اپنے سیاہ پر پھیلا دئے۔ یہ مسلمانوں کے لیے کٹھن ترین دور تھا جب ان کے مذہب ومعاشرت، تاریخ وتمدن اور جذبۂ حریت پر بدقسمتی کے تالے پڑ گئے اور مسلمانوں پر عرصۂ حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا کہ انھیں اشک اور آہیں ہی اپنا نصیب معلوم ہونے لگیں۔
مگر۔۔۔
آزادی کے ولولے کو تازہ رکھنے کے لیے سیّد احمد شہید بریلوی اٹھے اور دلوں کو انگاروں کی طرح گرما گئے۔ کتنی ہی زیرِ زمین تحریکوں نے اس چنگاری کو سلگائے رکھا۔ ٹیپو سلطان شہید نے اپنے لہو سے اس چنگاری کو شعلہ بنا دیا جسے مجددِ الفِ ثانی نے اپنے جذبہ وجنوں کی دولت بخشی اور شاہ ولی اللہ نے اپنا تن، من اور دھن دیا۔ سنہ 1857ء کے شہداء کے لہو کی تب وتاب اسی نورِ سحر کے لیے تھی اور مولانا عبید اللہ سندھی کے دِل کی تڑپ بھی اسی چنگاری کی تابانی کے لیے تھی اور سر سیّد احمد خان کی تگ ودو کا مرکز ومحور بھی یہی تھا۔
سنہ 1885ء میں سب کے لیے برابری کے حقوق کا نعرہ لیے انڈین نیشنل کانگریس قائم ہوئی مگر سر سیّد احمد خان نے مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی، کیونکہ وہ اپنی دور اندیشی سے یہ خطرہ بھانپ چکے تھے کہ “تمام اقوام کے لیے مساوی حقوق” کا نعرہ وہ میٹھی چُھری ہے جس کے ذریعے ہندو اکثریت مسلمانوں کے رہے سہے حقوق بھی ذبح کرنا چاہتی ہے۔
سنہ 1906ء میں شملہ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا کیونکہ جنگِ آزادی کے بعد کے تمام عرصے میں اردو ہندی تنازعے، فرقہ وارانہ فسادات اور تقسیمِ بنگال کی مخالفت نے مسلمان قوم کو بد دِل کر دیا تھا اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی تھی کہ ہندو اکثریت مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے سے قاصر ہے اور انہیں اپنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق کے حصول کے لیے اپنی نمائندہ جماعت بنانی چاہیے۔
مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائدِ اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، نوابزادہ لیاقت علی خان، سردار عبد الرب نشتر جیسی نابغۂ روزگار شخصیات نے مسلم قوم کے حقوق کے لیے جد وجہد کا آغاز کیا۔
سنہ 1930ء میں الہٰ آباد کے مقام پر علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک جدا گانہ مملکت کے قیام کو مسلم قوم کا مستقبل ٹھہرایا۔
اقبال کے اس خواب کو جہاں مخالفین نے “دیوانے کا خواب” قرار دیا وہیں چودھری رحمت علی نے “ابھی نہیں تو کبھی نہیں” کی صورت میں اسے پذیرائی بخشی، اور آخر کار 23 مارچ سنہ 1940ء میں منٹو پارک کے مقام پر مسلم لیگ کا وہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا جو مسلمانانِ برِ صغیر کی تاریخ کا روشن باب ہے۔
اس اجلاس کی صدارت قائدِ اعظم نے کی اور اپنے خطاب میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو اجاگر کیا جہاں قائد کا کہنا تھا کہ برِ صغیر ایک ملک نہیں اور ہندو مسلم تنازعہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کا حل برِ صغیر میں ایک سے زیادہ ریاستوں کا قیام ہے۔ اور یہ کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیتیں ہیں، ان کا رہن سہن اور طرزِ معاشرت ہندؤوں سے الگ ہے، ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہے، حتیٰ کہ ایک قوم کی فتح دوسری قوم کی شکست ہے۔ قائد نے آئر لینڈ اور چیکوسلوواکیہ کی مثالیں دیتے ہوئے جداگانہ مملکت کے قیام کو منطقی اور جائز قرار دیا۔
اسی اجلاس میں قراردادِ لاہور کے نام سے قرارداد مولوی فضل الحق نے پیش کی جس کے بنیادی نکات میں باہم متصل اکائیوں کی نئے خطوط پر حد بندی اور شمال مغرب اور مشرق میں مسلم اکثریت کے علاقوں میں آزادانہ مسلم مملکتوں کا قیام تھا۔ قرارداد میں فیصلہ کیا گیا کہ تقسیم کے علاوہ کسی اور منصوبے کو منظور نہیں کیا جائے گا نیز تقسیم کی صورت میں ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کا مناسب بندوبست کیا جائے گا۔
حاضرین نے زبردست نعروں کے ساتھ قرارداد کو منظور کر لیا۔
تاریخی اعتبار سے یہ دن بے حد اہم تھا جب مسلمانوں نے اپنی منزل کا تعین کر لیا تھا۔ قرارداد کی منظوری کے بعد گاندھی سمیت تمام ہندو قائدین نے اسے یکسر مسترد کر دیا جبکہ برطانوی پریس نے اسے اہمیت دینے سے یکسر انکار کر دیا۔
مخالفین کا گمان تھا کہ یہ مطالبہ جلد ہی اپنی موت آپ مر جائے گا مگر:
“لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان”
اور
“پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہٰ الا اللہ!” کا نعرہ مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا، اور قائدِ اعظم کی بے لوث قیادت اور اپنے عزم، لگن اور جنون کی بدولت انہوں نے محض سات سال کے مختصر عرصے میں وہ منزلِ مراد پا لی جسے دنیا دیوانے کا خواب قرار دیتی تھی۔