” اور ان (دشمنوں سے مقابلے) کیلئے جتنا کر سکتے ہو، طاقت اور گھوڑے تیار رکھو تاکہ اللّٰہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان دشمنوں کو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللّٰہ جانتا ہے ڈراؤ۔ اور اللّٰہ کی راہ میں جتنا خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں ملے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ” سورۃ الانفال۔ آیت نمبر 60
خدا کے اس فرمان میں بہت سی حکمتیں موجود ہیں۔
¤اپنے دشمن سے غافل نہ ہونا
¤اس سے مقابلے کے لئے ہر طرح سے تیار رہنا اور اپنی تیاری کے ذریعے دشمن پر ہیبت طاری رکھنا
¤اپنے ان دشمنوں سے بھی ہوشیار رہنا جو ابھی منظرِ عام پر نہیں آئے، جن سے ہم واقف نہیں مگر خُدا واقف ہے!
مملکتِ خداداد کو اپنے قیام کے وقت سے ہی ایک دشمن کا سامنا رہا ہے، جو چانکیہ کا پیروکار ہے اور جس کا خواب “اکھنڈ بھارت” ہے، جس نے تقسیمِ برصغیر کو بھی اسی امید پر نہ چاہتے ہوئے قبول کیا تھا کہ وسائل سے محروم کمزور پاکستان بن بھی گیا تو آخر کتنے دن قائم رہ سکے گا ؟ یہی وہ دشمن ہے جو کشمیر میں عوامی امنگوں کے برخلاف جبری تسلط کا مرتکب ہوا، یہی وہ دشمن ہے جس نے کبھی تو ہمارے آبی ذخائر کو لُوٹا تو کبھی غیر اعلانیہ جنگیں چھیڑ کر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی سعی کی۔
جنگِ ستمبر 1965ء کی عزیمت کا بدلہ لینے کیلئے اکھنڈ بھارت کے حامیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے سازشوں کا نیا جال بُننا شروع کیا، اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے اس بار ان کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے اندرونی انتشار سے بھارت نے پورا فائدہ اٹھایا، عوام کی بےچینی اور ان کو بھڑکانے میں بھارت کا کلیدی کردار رہا۔ یہی نہیں بلکہ “مکتی باہنی” کو مالی اور فنی و تربیتی امداد بھی بھارت نے ہی دی جس کی بدولت پاک فوج کو نشانہ بنایا گیا اور دشمن کو دراندازی کا موقع ملا جس سے اس نے پورا فائدہ اٹھایا۔ 16 دسمبر 1971ء کو “بنگلہ دیش” کے قیام کے اعلان کے محض چند گھنٹوں بعد بھارت نے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مشرقی پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور اسے مغربی پاکستان سے جدا کرنے میں اکھنڈ بھارت کے حامیوں کا ناپاک ہاتھ شامل تھا جس کا ثبوت اندرا گاندھی کا یہ بیان تھا کہ دو قومی نظریہ سمندر برد کر دیا گیا ہے، اور اپنے اس گھناؤنے کردار کی تصدیق کچھ روز قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے حالیہ بیان کے ذریعے کر چکے ہیں!
اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے بعد بہت سی چیزیں غیر روایتی ہو گئی ہیں، سائنسی ترقی کے ساتھ جنگ کے طریقے بھی تبدیل ہو گئے ۔ لہٰذا دشمن نے ایک اور بہروپ بھرا، اور 16 دسمبر ہی کی تاریخ کو 43 برس بعد اس قوم کے دل پر اس وقت ضرب لگائی جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 144 نہتے طالب علموں، اساتذہ اور دیگر افراد کو انتہائی سفاکی سے شہید کر دیا گیا۔ گو کہ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی مگر ایک عیار دشمن سے برسرِپیکار ہوتے ہوئے اس غیر روایتی جنگ کے داؤ پیچ سمجھنا ضروری ہیں!
بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے وہ “روایتی جنگ” کی دھمکی اور “غیر روایتی جنگ” کے پھیلاؤ کا سہارا لئے ہوئے ہے۔ ایک طرف تو وہ کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس اس ملک میں بھیج رہا ہے جو ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے تخریبی اور دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں، تو دوسری طرف علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو مالی امداد اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے، جو بھارت کی ایماء پر ملک میں خونِ ناحق بہانے اور اقوام عالم میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنے کا باعث ہے۔ اس بات کا اعتراف نہ صرف پچھلے برس گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے کیا ہے بلکہ تحریکِ طالبان پاکستان کے ہتھیار ڈالنے والے سابقہ ترجمان احسان اللّٰہ احسان نے بھی پاکستان میں بھارتی دخل اندازی کی ان الفاظ میں تصدیق کی ہے:
” انہوں نے اپنے ہر کام کیلئے پیسے اور امداد وصول کی۔ انہوں نے ٹی ٹی پی کے جوانوں کو پاک فوج سے لڑنے کیلئے اگلی صفوں میں بھیجا اور خود روپوش ہو گئے۔ جب انہوں نے بھارت سے امداد لینا شروع کی ، میں نے خراسانی سے کہا کہ ہم اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مارنے کیلئے کفار کی مدد کر رہے ہیں، خراسانی نے جواب دیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اسرائیل بھی امداد کی پیشکش کرے تو میں لوں گا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ ٹی ٹی پی کچھ رہنماؤں کے ذاتی فائدے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔”
بھارت کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ روابط پر
“Why India is not a super power (yet)”
کے مصنف بھارت کرناد نے “انڈیا ٹوڈے” کے اپنے مراسلے میں ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے جو کہ چشم کشا ہے :
“جیمز میٹس کی درخواست کہ بھارت ٹی ٹی پی کی امداد کو اعتدال پر لائے، دہلی کو مشکل میں ڈال دے گی، کیونکہ ٹی ٹی پی، جموں وکشمیر میں آئی ایس آئی کے تعینات کردہ جزب المجاہدین، لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کے متبادل کے طور پر بھارت کیلئے بہت مددگار ہے۔ ٹی ٹی پی سے تعلقات توڑ دینے کا مطلب ہے کہ بھارت ، پاکستان اور افغانستان میں اپنے ترپ کے پتے سے ہاتھ دھو بیٹھے، کیونکہ ٹی ٹی پی کچھ افغان طالبان دھڑوں تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ عبدالغنی حکومت کی بھارتی موجودگی کی خواہش، عبدالرشید دوستم کی آزمودہ دوستی اور تاجک “شمالی اتحاد” اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ افغانستان میں کوئی بھی امن عمل بھارتی مدد کے بغیر ممکن نہ ہو سکے گا!”
تاریخ کا سبق ہے کہ قوموں کو اپنے ماضی سے ہر حال میں سبق سیکھنا ہے۔ ہمیں اپنے اس دشمن سے خبردار رہنا ہے جس نے 46 برس قبل ہمارا ایک بازو ہم سے جدا کر دیا تھا ۔ اپنی اس شکست سے ہم نے جوہری استعداد کار حاصل کی نتیجتاً آج ہماری سرحد کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھتا۔ اب تین برس قبل اسی دشمن نے ہمارے دل پر وار کیا ہے، اور شاید یہ زخم کبھی بھر نہ سکے۔ سبق یہ ہے کہ فرمانِ خدا کے مطابق اپنے دشمن سے چوکنا رہا جائے، اس سے غافل ہونا بےوقوفی ہے۔ ہر ممکن طور پر اپنے دشمن کے خلاف تیاری کے ساتھ مستعد رہنا ہوگا تاکہ دشمن کے دل پر ہیبت طاری رہے اور ہمارے جانے پہچانے اور چھپے ہوئے دشمن بھی خوفزدہ رہیں۔
آج کا دن ان کم سن شہداء کو یاد کرنے کا ہے جنہوں نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا اور پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد کر گئے اور ساتھ ہی یہ سبق بھی دے گئے کہ آئندہ اپنے دشمن کا وار روکنے کیلئے ہمیں پیش بندی کرنا ہوگی، جس کیلئے مستقبل میں ہمارے پاس غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔
“ہم گنہگار ہیں اے زمینِ وطن، پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی
سرحدوں سے بلاتے ہوئے خون کی، اپنی بہنوں کی حرمت کی، اولاد کی
ہاں قسم ہے ہمیں آنے والے دنوں کی، اور آنکھوں میں ٹھہری ہوئی یاد کی
اب محافظ نما دشمنوں کے علم، ان کے کالے لہو سے بھگوئیں گے ہم
تیرے دامن پہ رسوائیوں کے نشاں، آنسوؤں کے سمندر سے دھوئیں گے ہم
آخری مرتبہ اے متاعِ نظر! آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم
تیری آنکھوں میں اب، اے نگارِ وطن، شرمساری کے آنسو نہیں آئیں گے
ہم کو تیری قسم اے بہارِ وطن! اب اندھیرے سفر کو نہ دہرائیں گے
گر کسی نے تیرے ساتھ دھوکہ کیا تو وہ کوئی بھی ہو
اس کے رستے کی دیوار بن جائیں گے
جان دے کر تیرا نام کر جائیں گے”