کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کہ اس کا خون ہماری قوم کے نوخیز پودوں کیلئے موزوں ہوا ہے)
اگر آپ بنیادی طبیعات سے واقف ہیں تو یقیناً آپ نے چین ری ایکشن (chain reaction) کے بارے میں بھی سُن رکھا ہوگا، جس میں ایک ایٹم کا نیوکلئیس ٹوٹنے سے اگلا ردعمل پیدا ہوتا ہے، اگلے ایٹم کا نیوکلئیس ٹوٹتا ہے، یہ عمل چلتا رہتا ہے اور ایک چین ری ایکشن کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس کے نتیجے میں توانائی کی ایک بڑی مقدار پیدا ہوتی ہے اور کوئی بھی ایٹم ری ایکشن کے بعد پہلے سا نہیں رہتا۔ اور اگر اس عمل کو قابو میں نہ رکھا جائے تو یہ بڑی تباہی کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
بنظرِ غائر دیکھیں تو یہ چین ری ایکشن صرف نیوکلیئر ری ایکٹرز تک محدود نہیں ہے، قوموں کی تاریخ میں بھی ایسے واقعات آتے رہے ہیں جہاں ایک واقعے نے قوم کے نظریات بدل کر رکھ دئیے اور اس قوم کا کوئی بھی فرد پہلے جیسا نہیں رہا، کم و بیش ہمیشہ ہی وہ واقعہ تاریخ کا دھارا بدلنے میں کامیاب رہا۔ مثال کے طور پر برصغیر کے تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو 1857ء کی جنگِ آزادی، جنگ کے بعد مسلم قوم کی تذلیل اور شدھی اور سنگھٹن جیسی تحاریک نے برصغیر کی مسلمان قوم کے “چین ری ایکشن” کیلئے “عمل انگیز” (catalyst) کا کام دیا، نتیجتاً ان کے ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں نظریات یکسر تبدیل ہو گئے اور آج “پاکستان” دنیا کے نقشے پر ایک الگ مُلک کی حیثیت سے قائم ہے۔
پاکستان کے جغرافیائی، مذہبی اور عوامی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی عوام کا کشمیر سے ربط بہت گہرا ہے، جس کے عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت پاکستان پچھلی سات دہائیوں سے کرتا آ رہا ہے، جس کی مقبوضہ وادی کے عوام آج کرفیو اور مختلف پابندیوں کے عالم میں “برہان وانی” کی شہادت کی پہلی برسی منا رہے ہیں۔
برہان وانی وہ نوجوان کشمیری مجاہد ہے جس نے بغیر اسلحہ چلائے، محض سوشل میڈیا کو استعمال میں لاتے ہوئے نہ صرف کشمیر کی آزادی کی تحریک میں نئی روح پھونک دی بلکہ زیارت کی غرض سے آئے بھارتی پنڈتوں کی حفاظت کا عندیہ دے کر ایک ہردلعزیز مقام حاصل کر لیا تھا۔ گو کہ قابض انتظامیہ کا کہنا تھا کہ افواج پر ہونے والے کسی بھی حملے میں برہان وانی ملوث نہیں تھا، مگر پھر بھی اسے “دہشت گرد” قرار دے کر اس کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کی گئی، اور 8 جولائی 2016ء کو ایک جعلی مقابلے میں کوکرناگ کے مقام پر برہان وانی کو شہید کر دیا گیا۔
برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ وادی کے باسیوں کے جذبۂ حریت کو مہمیز عطا کیا، اور وہ قابض افواج کے لگائے گئے کرفیو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گھروں سے نکل آئے اور قابض فوج کو ان کی بیرکوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ شہید کی نمازِ جنازہ 47 بار ادا کی گئی جس میں پانچ لاکھ کے قریب لوگ شریک ہوئے۔ قابض فوج کے تشدد، چھرّے اور اسالٹ رائفل بھی کشمیریوں کے احتجاج کو نہ روک سکے، اور آج ایک برس گزرنے کے بعد یہ عالم ہے کہ برہان وانی کے حق میں اور بھارت کے جبری تسلط کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں سو کے قریب کشمیری شہید ہوچکے ہیں، پندرہ ہزار سے زیادہ زخمی ہیں، ہزاروں لاپتہ اور زیرِ حراست ہیں، جبکہ چھرّوں کا شکار ہو کر بینائی سے محروم ہونے والے افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
دمِ تحریر یہ عالم ہے کہ آزادی کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں مرد، خواتین اور افواج پر پتھراؤ کرنے والے کم سن لڑکوں کے علاوہ سکول جانے والی بچیاں بھی شامل ہو گئی ہیں، اور ان مظاہرین کے سامنے قابض فوج بھی بےبس نظر آتی ہے۔ آج برہان وانی کی شہادت کی پہلی برسی کے موقع پر کشمیریوں کی آواز کا گلا گھونٹنے کیلئے قابض انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور وادی میں کرفیو نافذ ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کو ایک ایسی قوم میں بدل دیا ہے جو آزادی سے کم کسی بھی قیمت پر راضی نہیں ہوگی۔ اس کی شہادت نے کشمیر کے ہر جوان، مرد، عورت اور بچے کو بدل کر رکھ دیا ہے جو بھارت سے اپنی آزادی چھین لینا چاہتے ہیں اور تاریخ کا دھارا بدل دینا چاہتے ہیں۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والی ہر شہادت، ہر گرفتاری، ہر تشدد کشمیریوں کے جذبۂ حریت کیلئے عمل انگیز کا کام دے رہا ہے، اور ان شاء اللّٰہ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی جبر و تسلط سے نجات حاصل کر کے ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ اس دن کے آنے تک کشمیری عوام کیلئے اس آزمائش سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے،
“اے اہلِ ایمان (کفار کے مقابلے میں) ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو اور اللّٰہ سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرو۔” (سورۃ آل عمران۔ آیت 200)