علاقائی اور بین الاقوامی منظرنامے میں پیدا ہوتی نئی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ تمام واقعات کا عملی و غیر جذباتی تجزیہ ایک منسلک پیرائے اور متعلقہ سیاق و سباق کے تناظر میں انتہائی باریک بینی سے معاملہ کی تمام جہتوں کو مد نظررکھتے ہوئے کیا جائے۔
یہ انہتائی سوچ سمجھ کے بیان کیا گیا نکتہ ھے کوئی مبالغہ آرائی نہیں- قیام پاکستان سےلے کر آج تک پاکستان کی داخلی اور خارجی سلامتی کا سب سے بڑا چیلنج بیرونی مداخلت اور اس پر انحصار کرتے اندرونی عناصر رہے ہیں- بے شک اس تناظرمیں زمہ د ار ہماری اپنی کمزوری اور بعض مواقع پر نرمی اور مصلحت کوشی پر مبنی رویے اور نا قابل قبول طرزعمل بھی ہے جس سے انکار قطعی ممکن نہیں لیکن قائدملت کے قتل سے لے کرسقوط ڈھاکا تک, معاشی دہشتگردی کے پس منظر میں ایوب خان اور مشرف کے درآمدی وزراء خزانہ کی مرکزی کابینہ میں شمولیت سے ل یکر کالاباغ ڈیم کے سبوتاژ تک غیرملکی مداخلت کے نقش پاکستان کی قومی تاریخ کے صفحات پر بکھرے پڑے ہیں۔
اپنی جیو سٹریٹجک پوزیشن اور پڑوس میں بھارت اور ایران جیسی ماضی کی اسیراورعظمت رفتہ کی متلاشی ریاستوں اور مشرق وسطٰی کہ بعض “برادر”عرب ممالک کی پاکستانی اثاثوں میں دلچسپی جیسے عوامل کی موجودگی نے اس چیلنج کو پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا کر معاملے کی نوعیت کو مزید پیچیدہ کر رکھا ھے۔
میانمار کے سرحدی علاقے میں کی گئ مبینہ فوجی کاروائی جسکی صداقت کا معاملہ ہنوز سوالیہ نشان کی زد میں ہے اور اس پر شروع کی گئی بھارتی وزراء کی حالیہ ہرزہ سرائی کو تاریخی تناظر میں دیکھا جانا بڑے کینوس میں معاملے کی روایتی نوعیت کا عکس پیش کرتا ہے
فی الحال موضوع مضمون بھارتی جنگی جنون کا بڑھتا ہوا بخار ہے جس نے بظاہر تمام اعلٰی بھارتی قیادت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے – پاکستانی ریاستی سلامتی پالیسی کا بنیادی نکتہ اور سلامتی کے اداروں کی توجہ کا مرکزبھارتی اکابرین پروقتاًفوقتاً طاری ہوتے دیوانگی کے اسی دورے کا سدباب ہے – بھارتی سیاسی اور فوجی قیادت
کی ذہنی حالت بعض اوقات اس بچے کی سی لگتی ہے جو محض توجہ کے حصول کیلئے بار بار بیماری کی اداکاری اور خوب شورشرابا کرتا ہے لیکن پھر معالج اور اسکے “انجیکشن” کے خوف سے اس کی گھگھی بندھ جا تی ہے اور پھر کچھ عرصہ سکون سے گزارنے کے بعد ازسرنو وہی کھیل شروع کردیتا ہے – امید ہے معالج اورانجیکشن کی اصطلاح کے استعمال سے جو اشارہ دینا مقصود تھا وہ قارئین تک پہنچ گیا ہوگا
میانمار کے سرحدی علاقے میں کی گئ مبینہ فوجی کاروائی جسکی صداقت کا معاملہ ہنوز سوالیہ نشان کی زد میں ہے اور اس پر شروع کی گئی بھارتی وزراء کی حالیہ ہرزہ سرائی کو تاریخی تناظر میں دیکھا جانا بڑے کینوس میں معاملے کی روایتی نوعیت کا عکس پیش کرتا ہے، لیکن کسی بھی بنیادی پالیسی قدم کی تشکیل سے پہلے تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ اس عکس کے موجودہ بڑھتے، بدلتے نقوش کی باریکیوں کومدنظر رکھنا ضروری ہے –
یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ چندرگپت موریہ اور اشوک کے بعد اب جا کے بھارت پر اسکے “اصل” سپوت دوبارہ مکمل حکمرانی کا دعوٰی کرنے کے لائق ہوئے ہیں اس2 ہزار سال پرانے خواب کے یوں پورا ہونے پر بھارتی اکابرین کے حواس مختل ہوگئے ہیں ،بدلے کی خواہش اور سستی انانیت کے اسیرہو کر وہ تاریخ کا سبق بھول گئے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں حاصل کی گئی شہری معاشی بہتری جس نے ایک مخصوص طرز زندگی کی ترویج کی،کہ جس میں نرگیسیت اور خبط عظمت کے عناصر کی شدید زیادتی نے اس احساس کو مزید جلا بخشی ہے ،کہ وہ عظمتِ گمشدہ کہ جس کی سرحدیں برما سے بامیان تک تھیں ایک بار پھر ایک لڑی میں پروئی جائے- قیام پاکستان اس احساس کمتری کی ماری خوئے انتقام کی پروردہ بیمار سوچ کی پشت پرحقیقت کا تازیانہ ہے –
بھارت کے اپنے ہرقابل ذکر پڑوسی ملک سے چاہے تنازعات ہیں لیکن بھارتی قیادت کی حتی الامکان یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ہر پڑوسی کے پڑوسی سے اس کے خوشگواراور تزویراتی بنیادوں پر استوار مظبوط باہمی تعلقات رہیں،
اس تاریخی مغالطہ کی جڑیں کافی گہری ہیں- آنجہانی پنڈت جواہرلال نہرو چانکیہ کوٹلیہ اور اس کی تعلیمات “ارتھ شاستر” کے بڑے مداح تھے – یہ تاریخی کردار چندر گپت موریہ اور اسکے پیش رواشوک کا وزیراعظم اور بین الاقوامی امور کا ماہر مشیر رہا اسی کے مشوروں پر عمل کر کے چندر گپت موریہ اپنی سلطنت کووسیع کرنے میں کامیاب رہا۔ ان کامیابیوں کے پیچھےچانکیہ کے مشہور زمانہ سامراجی پالیسی مقولے “آپ کا پڑوسی آپکا دشمن ہے لیکن اپکے پڑوسی کا پڑوسی آپکا دوست ہے” کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے اور جنوب مشرقی ایشیاء کےلیے بھارتی ریاستی پالیسی چانکیہ کے بیان کردہ انہی اصولوں پر استوار ہے بھارت کا قومی نشان سرناتھ شیر اور جھنڈے میں موجود “دھرم چکرا” دراصل موریہ عہد کی علامتیں ہیں بھارتی حکمرانوں کی اسی ذہنی کج روی کا اظہار کرتی ہے۔
بھارت کے اپنے ہرقابل ذکر پڑوسی ملک سے چاہے تنازعات ہیں لیکن بھارتی قیادت کی حتی الامکان یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ہر پڑوسی کے پڑوسی سے اس کے خوشگواراور تزویراتی بنیادوں پر استوار مظبوط باہمی تعلقات رہیں، مثال کے طور پر پاک بھارت تنازعات کے تناظر میں ایران اور بھارت تعلقات, افغان بھارت تعلقات حتٰی کہ تاجکستان تک میں موجود بھارتی فوجی فضائی اڈے کی موجودگی اسی جارحانہ خارجہ پالیسی کے مصروف عمل ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
واقعاتی تفصیلات کی گرد کی تہہ بےشک کافی دبیزہے لیکن بھارتی طالع آزماؤں تک ایک پیغام بڑی ہی واشگاف شفافیت کے ساتھ پہنچانا نہایت ضروری ہے کہ “پاکستان” بھوٹان, نیپال, برما یا افغانستان نہیں اور بھارت امریکہ نہیں ہے۔ بھارتی عوام سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی پاکستان فوبیا کے شکار بھارتی میڈیا اور بالی وڈ کے تصوراتی خاکے سے باہر نکل کرجنگی جنون کا شکار ہونے کے بجائے اپنے سماجی اور معاشی مسائل کے حل پر توجہ دیں جس نے پورے بھارتی معاشرے کو انتہائی امیر اور انتہائی غریب کی مہلک تقسیم میں بانٹ رکھا ہے، جس کی جھلک اس دہرے معیار پر قائم کیے گئے غیرانسانی معاشی تقسیم پر مبنی نظام کے ہاتوں مجبور کسانوں کی خودکشیوں کی صورت میں سننے کو ملتی ہیں ایک سوبیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف بیس پچیس فیصد کی معاشی بہتری کو ترقی کی معراج سمجھ کر دن رات بغلیں بجانا محض خود فریبی اور کوتاہ اندیشی کے زمرے میں آتا ہے پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ھے کہ جنگ بےشک کسی مسئلےکا حل نہیں لیکن بھارتی زعماء خاطر جمع رکھیں مسلط کیے گئے کسی بھی حربی تنازع اور مہم جوئی کا شافی جواب بھرپور انداذ میں دیاجائے گا بقول چوہدری شجاعت “یہ بم کوئی پھپھوجی کی شادی پہ پھوڑنے کیلئے نہیں رکھا” دروغ بر گردن راوی۔